نئی دہلی : جسٹس پنڈٹ آنند نرائن ملا ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کا دائرہ قانون سے سماج اور سماج سے ادب تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ ایک ممتاز قانون داں کے ساتھ ساتھ اردو کے اہم شعرا میں منفرد مقام و مرتبے کے حامل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف قانون داں اور ممبر آف پارلیمنٹ جناب مجید میمن ایڈوکیٹ نے جسٹس آنند نرائن ملا کی علمی و دابی خدمات پر مجلس فخر بحرین برائے فروغ اردو کی جانب سے آئیڈیا کمیونیکیشن کے زیر انتظام جامعہ ہمدرد کے کنونشن سینٹر میںایک روہ قومی سمینار کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔
پروفیسر اختر الواسع (کمشنر فار لنگوسٹک مائنارٹیز حکومت ہند)نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ پنڈٹ آنند نرائن ملا ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار تھے۔ انھوں نے جدوجہد آزادی کی تحریک میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ ایک ماہر قانون داں تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اردو ادب کے ذخیرے میں بھی بیش بہا اضافہ کیا ہے۔پروفیسر اخترالواسع نے اردو زبان کو معاش کے شوق کا ذریعہ اختیار کرنے پر زور دیا ۔انھوں نے ملا کی نظم نگاری کے مختلف پہلوؤں اور بعض تانیثی پہلوؤں کی نشاندہی کی ۔معروف اور ممتاز نقاد پروفیسر شمیم حنفی کلیدی خطبہ پیش کیا ۔انھوں نے ملاکے تہذیبی اور ثقافتی رویوں کو بطور خاص واضح کیا اور کہاکہ وہ جس عہد کی پیدوار تھے اس سے کہیں آگے سوچنے کی کوشش کی۔
اس موقع پر مہمان اعزازی جناب شکیل احمد صبر حدی (بانی و سرپرست مجلس فحر بحرین برائے فروغ اردو) محترمہ چتراکول ملا (صاحبزادی آنند نرائن ملا) پروفیسر شمیم جیراجپوری (سابق وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)نے بھی اظہار خیال کیا۔ انھوں نے جہاں میزبانوں کو اس پروگرام کے لیے مبارک باد پیش کیا وہیںاس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں اردو زبان کے فروغ اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے اسی عزم اور جدوجہد کرنی ہوگی۔
ڈاکٹر فرودس احمد وانی (رجسٹرار جامعہ ہمدرد)نے مہمانوں کا استقبال کیا اور آصف اعظمی (ڈائرکٹر آئیڈیا کمیونیکشنز)تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اردو کی گنگا جمنی تہدیب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور اسی لیے ہماری کوشش ہے کہ شاعری کے وہ نشانات جو جدت او رترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ ہندستانی کی مشترکہ تہذیبی ثقافت کے فروغ کا سبب ہیں،اس سے لوگوں کو آگاہ رکھنا چاہتے ہیں ۔معین شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
افتتاحی اجلاس کے علاوہ دو سیشن میں مقالہ نگار حضرات نے مقالات پیش کیے۔ پہلے سیشن میں پروفیسر الطاف احمد اعظمی اور کرنل والمیکی کاٹجو، جبکہ دوسرے سیشن میں پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر معین الدین جینابڑے صدارت فرمائی بالترتیب نظامت کے فرائض ڈاکٹر عمیر منظر اور سلمان فیصل انجام دیے۔
معین الدین جینا بڑے نے صدارتی خطاب میں آنند نرائن ملا کی دانائی اور انسانی اقدار کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا ۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ یہ سمینار اردو دنیا پر ایک قرض تھا جس کو مجلس فخر بحرین اور آئیڈیا کمیونکیشن نے ادا کیا۔ انھوںنے مقالوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے تنوع کا خاص طور پر ذکر کیا۔
اس موقع پر پروفیسر محمد زاہد، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر قمرالہدی فریدی، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، ڈاکٹر سراج اجملی، ڈاکٹر صفدر امام قادری، ڈاکٹر ابوبکرعباد، ڈاکٹر عمیر منظر،، فرحت رضوی، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر عبید الرحمن،سید راشد حامدی ،شا ہ نواز فیاض ،سلمان فیصل ،اشفاق عمر نے مقالات پیش کیے۔ اس موقع پر جامعہ ہمدر،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی یونی ورسٹی ،اورجواہرلال نہرو یونی ورسٹی کے طلبا اور اسکالر نے شرکت کی ور سمینار کے مباحث میں حصہ لیا۔ِ پروفیسر غلام یحیی انجم ،ڈاکٹ رخورشید احمد، خبیب احمد، محمد مقیم ،محمد عثمان، نوشاد منظر، نازیہ جافو، ثمرین ،عائشہ پروین ،سفینہ ،جاوید عالم، خدیجہ، نے سمینار کے مختلف اجلاسوں میں شرکت کی۔