تحریر : ڈاکٹر ایم اے قیصر
چوہوں کی دہشت گردی سے نپٹنے، چوہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے چوہوں کے سر پہ انعام مقرر کیا۔۔۔شہریوں نے انعام حاصل کرنے کی غرض سے دھڑا دھڑ چوہوں کا قتلِ عام کیا۔۔۔ لیکن کسی کو انعام کی رقم نہ ملی۔۔۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ چوہے تو مارے مگر پیسے نہ ملے؟۔۔۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے انعام تو مقرر کیا تھا۔۔۔ دو چوہوں کی انعامی رقم مبلغ چھ سو روپے اپنی جیب سے ادا بھی کئے۔۔۔ لیکن اب ہم یہ انعامی سکیم ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور وجہ یہ بتائی گئی کہ ہماری اس سکیم کو لوگوں نے مزاق بنایا۔۔۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت کو اس سلسلے میں فنڈ بھی جاری کیا جا چکا ہے۔
اگر مزاق کی بات کی جائے تو ۔۔۔ مزاق تو بہت اڑایا گیا۔۔۔ الیکٹرانک میڈیا پہ ۔۔۔ پرنٹ میڈیا پہ۔۔۔ آن لائن میڈیا پہ۔۔۔ سوشل میڈیا پہ۔۔۔ چوہوں کو دہشت گرد کہا گیا۔۔۔ بدمعاش کہا گیا۔۔۔ پشاور پہ چوہوں کی بادشاہی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ جہاں چوہوں کو طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا وہیں۔۔۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ کو بھی خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔ تنقید کا سلسلہ صرف ضلعی انتظامیہ تک محدود نہ رہا بلکہ خیبرپختونخواہ حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ۔۔۔ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ آ گئی ہے۔۔۔ 2013ء میں شیر کا شکار کرنے والے 2016ء میں چوہے مار رہے ہیں!۔
ایک کارٹونسٹ نے اپنے کارٹون کو کیا خوب کیپشن دی!۔۔۔ ”خوچہ کیا گورنمنٹ ہے تمہارا؟ چوہے بھی خود نہیں مار سکتا”۔۔۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ ”ہم دہشت گردوں کو مار رہے ہیں اور عمران خان اپنے صوبے میں چوہے مار رہے ہیں”۔۔۔ وزیرِ داخلہ جناب پرویز رشید صاحب نے جب لوہا گرم دیکھا تو چوٹ لگانے کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا اور۔۔۔ عمران خان کی سیاست کو ”چوہا سیاست” کا لقب دے ڈالا۔۔۔یوں ایک سنجیدہ معاملہ مذاق کی نذر ہو گیا۔۔۔ اِسی موضوع پہ ہم نے اِک نظم بعنوان ”سیاست اُن کی چوہے مار!”لکھی ہے ، یہاں اپنی نظم کے دو شعر پیش کرنا چاہوں گا؛
چوہے مارے بے شمار،لاشیں اُٹھائے ہوئے خوار
پشاور حکومت انعام رکھا، اَب مگر دینے کو نہ ہے تیار
مار رہے ہیں اَب چوہے، جو آئے کرنے شیر شکار
وزیر داخلہ نے کہا، سیاست اُن کی چوہے مار!
اُردو کی ایک عام سی کہاوت ہے ”نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی” پشاور کی صورتِ حال کو دیکھ کے یوں لگتا ہے جیسے پشاور کی تمام بلیاں حج کو چلی گئی ہوں اور مجبوراً چوہے مارنے کا کام پشاور کی ضلعی حکومت کو کرنا پڑھ رہا ہو۔۔۔ یا ممکن ہے انتظامیہ نے بلیوں سے رجوع کیا ہو اور انہوں یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا ہو کہ ”ہمیں کیا ضرورت پڑی ! چوہوں کے پیچھے بھاگ کر انہیں شکار کرنے کی؟۔۔۔ حضرت انسان کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنی خوراک کی کیا فکر؟۔۔۔ کیونکہ ہم تو روزانہ کئی قسم کھانوں کی لذت سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ بس ذرا چل کے ‘ڈسٹ بن’ تک جانا ہوتا ہے اور وہاں ہمیں مچھلی، کباب، چرغہ، مٹن کڑاہی ، بیف سمیت ہر طرح کا کھانا مل جاتا ہے، جو کہ حضرت انسان نے ضائع کیا ہوتا ہے۔۔۔ تو ہمیں کیا ضرورت پڑی کہ ہم چوہوں کے پیچھے بھاگیں اور ان کا شکار کریں”۔۔۔ بلیوں کا کرارا سا جواب سن کر مایوس انتظامیہ نے خود سے چوہوں کا خاتمہ کرنے کی ٹھان لی ہو گی۔
لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا اسی لیے پشاور کی انتظامیہ کو عوامی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔۔۔ اپنی نظم کے دو شعر عرض کرنا چاہوں گا؛ ہم کھاتی ہیں چکن کباب مچھلی مٹن بیف روزانہ ‘ڈسٹ بن ‘ میں سجتا ہے، ہمارا دستر خوان شاہانہ پھر کیوں بھاگیں چوہوں پیچھے کٹا دو پرچہ وہ ہے تھانہ خود ہی چوہے مار گرائیں، پشاور حکومت نے پھر ٹھانہ ہم نے اپنے سابقہ کالم بعنوان ”چوہوں کی دہشت گردی” میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ” ممکن ہے کہ چوہوں کی لاشوں کی سمگلنگ ہونا شروع ہوجائے۔۔۔ کیونکہ یہ انعام کی آفر تو صرف پشاور کے لیے ہے، پاکستان کے باقی شہروں سے بے روزگاری کے ستائے ہوئے باشندے اس آفر سے مستفید ہونے کے لیے چوہوں کی لاشیں دوسرے شہروں سے لا کر انعام وصول کر سکتے ہیں۔
اس کے لیے شہر کے داخلی خارجی راستوں پر ناکہ بندی اور کڑی چیکنگ کی ضرورت ہو گی”۔۔۔ وہی ہوا!۔۔۔ سننے میں آیا ہے کہ ناکہ پہ چیکنگ کے دوران ایک شخص کے بیگ سے ایک ہزار چوہوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ جو پشاور لے جائی جا رہی تھیں۔۔۔ اگر وہ پکڑا نہ جاتا تو فی چوہا پچیس روپے کے حساب سے پچیس ہزار روپے انعام حاصل کر لیتا اور اگر چوہوں کو کینٹ ایریا کے چوہے ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو بحساب تین سو روپے فی چوہا، تین لاکھ روپے کی انعامی رقم کا حقدار ہوتا۔۔۔ اگر حساب لگایا جائے کہ پشاور میں کل کتنے چوہے ہوں گے ؟اور اُن پر کل کتنی انعامی رقم خرچ ہو گی؟ ۔۔۔ باہر سے سمگلنگ کے ذریعے لائے جانے والے چوہوں کو اگر شمار نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی یقینا کافی بڑی رقم بن جائے گی۔۔۔ اس خطیر رقم کا اگر صرف پانچ فیصد بھی چوہے مار ادویات پہ صرف کر دیا جائے تو یقینا چوہوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا ! عوام بھی نئی طرز کی سمگلنگ سے بچ جائے گی اور کوئی کسی کو ”چوہا مار” یا کسی کی سیاست کو ”چوہا سیاست” نہیں کہے گا!
تحریر : ڈاکٹر ایم اے قیصر