تحریر : انجم بلوچستانی
ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی دبئی روانگی سے پہلے اور بعد میں پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، سیاسی جماعتوں اورصحافیوں کے ہاتھ میں ایک نیا موضوع آگیا اور انکی اکثریت چائے کی پیالی میں طوفان بپا کرنے میں مصروف ہے۔ملک کے عوام مہنگائی، غربت،بیروز گاری،جہالت اور نا انصافی کی چکی میں پس رہے ہیں۔صحت ،ٹرانسپورٹ اورقانون کی سہولتیں ناپید ہیں۔ملک کے حکمران کرپشن اورچند دہشت گردوں کی امدادکی بناء پر ملک سے غداری کے مرتکب ہیں۔ ملک کے عوام خواب غفلت میں مبتلا ہیں۔ مگر یہ تمام باتیں غیر اہم قرار دے دی گئی ہیں۔لگتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف پرویز مشرف کی روانگی اور واپسی سے منسلک ہے،جن پر بنایا گیا غداری کا مقدمہ سیاسی مصلحت،شخصی عداوت اوربد ترین عصبیت پر مبنی ہے۔اول تو اس حمام میں سب۔۔۔۔۔اگر عدل و انصاف سے کام لیا جائے تو اس ملک کے سول و فوجی حکمرانوں، سیاستدانوں،بیوروکریٹس، اداروں کے سربراہوں،اعلیٰ حکام اور کئی صحافیوں پر غداری کے مقدمات درج ہو سکتے ہیں۔
بلکہ اگر یہ احتساب گذشتہ ادوار سے شروع کیا جائے تو معلوم ہو کہ قائداعظم اور انکے قریبی ساتھیوں کے بعداس ملک پر حکمرانی کرنے والے بیشتر افراد اپنے آپ سے وفادار مگرملک کے غدار تھے۔لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جنرل مشرف ہی کو اس الزام اور مقدمہ کے لئے کیوں چنا گیا۔اسکی سیاسی مصلحت یہ تھی کہ مسلم لیگ(ن) کو اپنے کارکنوں، عہدیداروں اور وزیروں،مشیروں کو مطمئن کرنا تھا،انہیںبیچنے کے لئے نیا منجن دینا تھا ، اپنے سیاسی حلیفوں اور مخالفوں پر اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا۔پھر جنرل پرویزمشرف نے وزیر اعظم میاںمحمد نواز شریف کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا تھا،وہ زخم ابھی تازہ ہیں۔ میاں صاحب جو مرضی کہیں مگر انکی ڈکشنری میں حقیقی معافی کا کئی لفظ نہیں۔
وہ اپنی فطرت سے ہٹ کر زندہ نہیں رہ سکتے۔ وہ اپنی طاقت اور مرضی کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آتے۔جنرل کرامت کا استعفےٰ و جنرل مشرف کی معذولی اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب مقابلہ کسی تگڑے پہلوان سے ہو تو اس سے مصالحت کا ہاتھ ملا کر وقتی طور پر مقابلہ ملتوی کر دیتے ہیں۔ رہے انکے وزیر اور مشیر،دوسری سیاسی پارٹیوں کے نمائندے اورصحافیوں کی اکثریت تو یہ شیر کی کھال اوڑھے ان گیدرڑوںپر مشتمل ہے، جو اصلی شیر کے زمانہ عروج میںاسکے پیر چاٹتے نظر آتے ہیںورنہ کہیں کونوں کھدروں میں چھپے رہتے ہیںیاپھر حقیقی شیر کے زیر عتاب رہتے ہیں،مگر اس کے زخمی ہونے پر جنگل میں دہاڑنا شروع کر دیتے ہیں،تاہم جب وہ کھڑا ہو کر دہاڑتا ہے تو انکی کھال اتر جاتی ہے اور اندر کا گیدڑ یا لومڑ نظر آنے لگتا ہے۔
یہی حال ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا ہے،جو ہماری بہادر افواج کے سپہ سالار رہے ،جنکی پاکستان سے وفاداری پر شک کرنا خود ملک سے غداری کے زمرہ میں آتا ہے۔وہ ملک کی صدارت چھوڑ کر باعزت طریقہ سے ملک سے باہر گئے۔پھراپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے باوجود ملک میں آکر ان الزامات اور مقدمات کا سامنا کیا۔ہر دفعہ ملک چھوڑ کر اپنی مرضی سے واپس آئے اور اس دفعہ بھی یہی ہوگا۔یعنی شیر دہاڑ کر چلا گیا اورگیدڑ،لومڑ،بھیڑیے بلکہ خرگوش تک ،جو شیر بنے ہوئے تھے اپنی اصل پر آکر اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں۔اگر عوام کا خیال ہے کہ ان میں سے کوئی اپنی بڑھک پر شرمندہ ہو گا تو یہ اسکی غلط فہمی ہے۔سیاستدان اپنی وزارتوں سے چمٹے رہیں گے۔بیورو کریٹس اپنے عہدوں پر قابض رہیں گے ۔صحافی،اینکرز ،کالم نگار اور تجزیہ کار ڈھیٹ بنے رہیں گے۔کچھ نہیں بدلے گا۔
اس مقدمے کی تیسری وجہ وہ لسانی عصبیت ہے،جس کا الزام تو ایم کیو ایم پر لگایا جاتا ہے،مگر درحقیقت اس کے علم بردار پاکستان کی ان تمام سیاسی ،دینی ومذہبی جماعتوں کے رہنما،میڈیا کے کرتا دھرتا اور عسکری و غیر عسکری تجزیہ کار ہیں،جو قائد اعظم کی زندگی میں ہی اس میںمرض میں مبتلا ہو چکے تھے اور انکی وفات کے بعد انہوں نے یہ زہر عوام میں منتقل کرنا شروع کر دیا اور حالت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت پاکستانی بن کر نہیں بلکہ پنجابی،پٹھان، بلوچی، سندھی، ہزارہ، سرائیکی بن کر سوچتی ہے۔انہوں نے مہاجروں اور خاص طور سے ان مہاجروں کو جن کی مادری زبان اردو ہے،مہاجر اور اردو اسپیکنگ کے لقب دے کر انکی تیسری نسل کو بھی پاکستانی ماننے سے انکار کیا ہوا ہے ،یہاں تک کہ ایم کیو ایم خود اپنے آپ کو اردو اسپیکینگ کہنے لگی،جبکہ وہ اور انکے آبائو اجدادپاکستان اردو اسپیکنگ نہیں پاکستانی کہلانے آئے تھے۔
پاکستان کی قومی زبان بولنے والوں سے لسانی عصبیت رکھنے والوں نے انکو سبق سکھانے کے لئے١٩٤٧ء سے لے کر اب تک صرف دو جنرلوں کو چنا، مرزا اسلم بیگ اور پرویز مشرف۔ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ کی بچت اس لئے ہو گئی کہ انکے ساتھ ریٹائرڈ جنرل درانی بھی شامل تھے، لہٰذا پٹھانوں کی ناراضگی کے سبب یہ مقدمہ پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔اسلئے جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بناتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ انہیں اکیلے مجرم کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ یہ پاکستان میںلسانی عصبیت کی بدترین مثال ہے۔مگر آپ نے کسی سیاستداں،اینکر، صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار سے یہ بات نہیں سنی ہوگی۔وہ اس آئینہ میںجھانکنا ہی نہیں چاہتے۔انکی دکان جھوٹ کے سہارے چلتی ہے۔لہٰذا وہ لسانی عصبیت کا الزام ایم کیو ایم پر ڈال کر آگے نکل جاتے ہیں،جبکہ لسانی عصبیت کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
اس مرض کے فوج میں گھس جانے کا اندازہ آپ آج کل کے عسکری تجزیہ کاروں کے تجزیوں سے بخوبی لگا سکتے ہیں،جو دیگر زخم خوردہ تجزیہ کاروں،اینکروں اور سیاستدانوں کی طرح جنرل مشرف کو ایم کیو ایم سے الحاق اور اسکی سر پرستی کی سزا دیناچاہتے ہیں۔خاص طور پر ٹی وی کے ٹاک شوز میںہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز کی طرح اس دھڑلے سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ اورجھوٹ میںفرق ختم ہو جاتا ہے۔ مثلاًکہا جاتا ہے کہ ”ایم کیوایم سیاست میں تشدد لانے والی اوّلین جماعت ہے۔”حالانکہ ایم کیو ایم کی بنیاد بننے والی، مہاجر طلباء تنظیم اس وقت موجود جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی اور پختون،پنجابی ،بلوچ کے نام رکھنے والی طلباء تنظیمات کے رد عمل میں وجود میںآئی ۔جن میں جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم اپنے مخالفین پر”تھنڈر اسکواڈ” کے ذریعہ تشدد کرنے میں پہلے اور پیپلز پارٹی طلباء تنظیم دوسرے نمبر پر تھی۔بلکہ کراچی میں تو پنجابی پختون اتحادPPI کے نام سے پاکستان کی بد ترین لسانی،انتہا پسند پارٹی بنائی گئی۔جسکی گواہی فوج اور خفیہ اداروں کے سربراہ گاہے بگاہے اپنے انٹرویوز میں دیتے رہتے ہیں۔اس طرح کی بے شمار مثالیں موجودہیں، جن کے لئے یہ صفحات ناکافی ہیں۔
تازہ مثال جنرل مشرف کی ہے۔ کہا گیا کہ” وہ باہر جانے کے لئے اپنے وکیلوں کے ذریعہ حکومت کے پیر پڑ گئے تھے۔”جبکہ انکے وکیل نے وزارت داخلہ کو لکھے جانے والے خط کی نقل میڈیا کے سامنے رکھ دی۔ جس میںوزارت کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی رو سے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے تحت جنرل مشرف کا نام اس لسٹ سے نکالا جانا چاہئے ورنہ توہین عدالت ہو گی۔اس طرح یہ سفید جھوٹ پکڑا گیا۔پھر کہا گیا کہ جنرل مشرف کے وکیل نے کہا ہے کہ” وہ کسی ڈیل کے تحت باہر گئے ہیں۔”اس جھوٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا،جب احمد رضا قصوری نے درجن بھر پروگراموں میں اسکی تردید کی اور بتایا کہ انکے الفاظ کو توڑ مروڑ کریہ بات گڑھی گئی،اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے رہنما، جھوٹے اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے ہمراہ مسلسل یہ جھوٹ بولے جارہے ہیں۔
جنرل مشرف کو جھوٹا، بزدل اوردغاباز قرار دینے کے لئے انکے دوبئی پہنچنے پرپہلے دن انکی مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کی تصاویر کوبنیاد بنا کرکہا گیا کہ” جنرل مشرف بالکل ٹھیک ہیںاور انہوں نے دوبئی پہنچتے ہی آل پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کیا ہے”اس مکروہ جھوٹ کے جواب میںپارٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر امجد،جو خود دبئی میں موجود ہیں،میڈیا کو بتا چکے ہیں کہ میری تجویز پر جنرل مشرف نے اپنے چاہنے والوں کو مزاج پرسی کے لئے چند منٹ دئے، مگر میڈیا” میں نہ مانوں” پر عمل پیرا ہے۔باقی رہے سیا ستدان،تو وہ بیچارے میڈیا کی خبروں کے علاوہ اور کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔
ایک اور جھوٹ دیکھئے،جو جلد بازی،سیاسی مصلحت اور غیر تحقیقی رویہ کا شاہکار ہے۔کہا گیا کہ”جنرل مشرف اپنے وکیلوں کے ذریعہ سپریم کورٹ کو تین سے چار ہفتوں تک واپسی کی یقین دہانی کرا کر گئے ہیں۔”لیکن جب انکے وکیلوں کی وضاحت سامنے آئی کہ معاملہ ملک چھوڑنے کا نہیں بلکہ لسٹ میں سے نام نکالنے کا تھا اور ہم نے سپریم کورٹ یا وزارت داخلہ کو کسی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔حکومت چاہتی تو کوئی نیا جواز کھڑا کر کے انہیں روک سکتی تھی جسکے بعد ایسی کسی یقین دہانی کی ضرورت پڑ سکتی تھی،جسمیں جنرل پرویز مشرف کی رائے کے مطابق لائحہ عمل بنایا جاتا۔ اس وضاحت نے جھوٹ کے اس غبارے کی ہوا بھی نکال دی اوروزارت داخلہ کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ حیرت ان اینکرز اور تجزیہ کاروں پر ہے، جو یاتو ان وضاحتوں سے بے خبر ہیں یا ان پر یقین نہیں رکھتے اور بڑے تسلسل اور بے شرمی سے جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جاتے ہیں۔
کبھی جنرل پرویز مشرف کے مخالف ہم خیال تجزیہ نگاروں کو اکٹھا کر کے انکے بارے میں بے سروپا سوالوں کا جواب ناظرین کو دکھایا جاتا ہے۔کبھی ایک اینکر دوسرے اینکر کو ٹاک شو میںبلا کر ”من ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو” کے مصداق ایک دوسرے کی تعریف کرکے ٹانگ مشرف کی مخالفت پر توڑتے ہیں اور کبھی چند مخصوص سیاستدانوں کوبٹھا کر جنرل مشرف کی کردار کشی کا ناپاک فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔مقصد ان سب کا ایک ہی ہے کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر، جنرل مشرف کی اچھائیوں کو چھپا کر برائیوں کا تذکرہ کرنے اور انکے بہانے ایم کیو ایم کو صلواتیں سنانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ پائے۔دوسری طرف جنرل مشرف کے بارے میں افواہ سازی جاری ہے۔ مثلاً جنرل مشرف مصطفٰے کمال کے پیچھے ہیں۔وہ مستقبل میں ایم کیو ایم کی قیادت سنبھال لیں گے۔ مشرف نے گجرات کے چوہدری براردران کو دبئی بلا یا ہے۔وہ دبئی میں رات دن سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،وغیرہ وغیرہ۔
ان بڑے بڑے نام رکھنے والے اینکروں، کالم نگاروں ، تجزیہ کاروں،سیاستدانوں اور صحافیوں سے میری درخواست ہے کہ عوام کے غم میں دبلا ہونا چھوڑ دیں۔وہ آپ کے عزائم اور ہتھکنڈوں سے آگاہ ہو چکے ہیں۔آپ کو عوام کی نمائندگی کے جھوٹے دعوے ترک کر کے اپنے آپ سے اور پاکستانی قوم سے سچ بولنا چاہئے اور دوسروں کو معافی مانگنے کے مشورے دینے کے ساتھ خود بھی پوری قوم سے اپنے منافقانہ رویہ کی معافی مانگنی چاہئے۔جو سیاستداں مشرف کو غدار قرار دیتے ہوئے مسلسل انکی بے عزتی پر تلے رہتے ہیں اور ان کی روانگی پر درد زہ کا شکار نظر آتے ہیں،وہ زنخوں کا ساطرز عمل اختیار کرنے( حالنکہ ان میں بھی مرد موجود ہیں) کے بجائے مرد بنیں۔ پوری نہیں توکم ازکم آدھی مونچھ ہی منڈوا دیں۔سیاست نہیں تو کم از کم وزارت ہی چھوڑ دیں۔مگر یہ سب ان شیروں کے کام ہیں،جن کے لئے سلطان ٹیپو شہید نے کہا تھا کہ” شیر کی ایک روزہ زندگی گیدڑ کی صد سالہ حیات سے بہتر ہے۔”مگر انکو شرم نہیں آتی اور کہنا پڑتا ہے” اوئے شیر بن شیر!!!”
تحریر : انجم بلوچستانی