تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری
حکمران اور دیگر اہم سیاسی راہنمااپنے ،اپنی اولادوں اوراپنے اے ٹی ایم کارڈز کے پانامہ میں دفنائے گئے سرمایوں کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔مشہور مقولہ کہ”تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”کے مصداق وہ ڈرون حملوں کی مذمت و مزاحمت کیوں کریں ان کا تخت اسلام آباد و لاہور مضبوط ومحفوظ ،سندھ اور سرحد میں دیگران کی حکمرانی جو لانیاں بکھیر رہی ہے چل چلائو کے دور میں بھی دھڑا دھڑ مال و متال بیرون جعلی و فراڈی طریقوں سے بھیجا جا رہا ہے راہنمائوں کا تو علاج بھی پاکستانی ہسپتالوں میں نہیں ہو سکتا۔زرداری اور شریفوں میں تو مقابلہ ہے کہ آئندہ انتخابات تک زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرلیں کہ دونوں دنیاوی سیانے سمجھتے ہیں کہ” جیدے گھر دانے اودے کملے وی سیانے”جب مالی پوزیشن انتہائی مستحکم ہو گی توپارٹی کارکنان اور چھوٹے موٹے عہدیدار ،اگر اقتدار ہے تو وزیر مشیر وغیرہ بھی ان کی اولادوں کی پو جا اسی طرح کریں گے جیسے ان کی ذاتی آج تک کی جارہی ہے۔
کوئی دوسرا آگے بڑھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔پارٹی قیادت ،اہم عہدے اور وزارتوںکی بندر بانٹ انہی کے یا انکی اولادوں کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔جب تک دائو چلتا ہے حکمران رہو وگرنہ باہر جو اربوں ڈالرز دفنائے ہوئے ہیں وہ آئندہ شاہانہ ٹھاٹھ بھاٹھ سے زندگی گزرنے کے لیے کافی ہیں۔کم ازکم دس پشتوں تک تو ان کا سرمایہ ختم نہیں ہو گا۔غریب عوام کے خون پسینے کی کمائیوں سے سرکاری بنکوں میں جمع رقوم سیاسی قذاق باہر لے گئے ہیں۔ابھی توپورے راز نہیں کھل سکے۔ویسے عمومی طور پر یہی ہوتا آیا ہے کہ باہر رکھے گئے ما ل متال قسمت والے ہی خرچ کرسکتے ہیں۔وگرنہ بیرون ملکوں میں لاوارث پڑا عموماً بیرونی حکومتوں،ان کے حکمرانوں کو کاروبار مملکت چلانے میں کام آتا ہے۔ہمارے حکمران ڈرون حملہ پر بیان تو کیا دیتے زبانی جمع تفریق کے طور پر مناسب احتجاج بھی نہ ہی کرسکے۔
دل کے مریض وزیر اعظم نے خود دوروں پر جاکر اپنی جان جھوکوں میں ڈالی تاکہ اقتداری دیوی ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔مگر اپنی سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر قوم کو جلسہ جلوس کرنے کی کال بھی نہ دے سکے جو بیان بازی کے لیے مامور ہیں ان کا بیان تیسری دنیا(خواجہ سرائوں)کے ڈانس کی طرح ہوتا ہے کہ کبھی ادھر پھدکتے ہیں اور کبھی ادھروہ سمجھ میں بھی نہیں آنے دیتے کہ اصل محبت اور نفرت کس سے ہے ۔اس لیے ان کے بیان بھی بعیہنہ ویسے ہی ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہ چلے کہ وہ دشمن کے ساتھ ہیںیااپنے حکمرانوں اور عوام کے تابعدار احتجاجی بیان دینے والے ایسے گم رہے کہ پھر لوگوں کومحسوس یوں ہوا کہ امریکنوں کے خلاف بیان دیتے ہوئے ان کے پر جلتے تھے یا پھر نام سنتے ہی بولتی بند ،زبان سن اور دماغ مائوف ہوگیا ہو گا کہ ہمیں کان سے پکڑ کر نکالنے کا حکم ہی اُدھر سے نہ آجائے کہ تجربہ کے مطابق کمانڈو مشرف صرف ایک فون کال پر اُوندھے منہ لیٹ گئے تھے اور ایسی ایسی تابعداریاں کرکے دکھائیں کہ امریکی حکمران ہونے کے باوجود مشرف کے مرید خاص بن گئے۔اس نے پاکستان کی پاک سرزمین سے بندے بھی بہت اٹھوائے اور مال بھی ڈھیروں سمیٹا غرضیکہ ایک سو بھیڑیں بطور سپاہی ہوں
کمانڈر شیر ہوتو جنگ جیتی جاسکتی ہے۔مگر سو شیر بطور سپاہی مو جود ہوں اور کمانڈر بھیڑہو تو جنگ الٹی گلے پڑ جائے گی اور لینے کی بجائے دینے پڑ جائیں گے۔مشرقی پاکستانی کمانڈر نیازی کے زیرکمان 98ہزار سپاہ ہتھیار ڈال سکتی ہے(حالانکہ اگر ڈٹے بھی رہتے تو کئی سال دفاع کرسکتے تھے اورپولینڈکی قرارداد برائے جنگ بندی آچکی تھی) یحییٰ خان جیسی بزدل قیادت نے مصلحتوں اقتداری لالچوں مغربی پاکستانی لیڈر سے لین دین کے ذریعے خود آئندہ بھی صدر رہنے کے جعلی وعدوں اور معاہدوں پر کمپرومائز کرکے سرنڈر کرنے کا حکم بھیج ڈالا تھاگو 1971کی پاک بھارت جنگ کے تینوں غدار کردار اپنے ذلت آمیز اور شرمناک انجام کو پہنچ گئے مگر” اب پچھتائے کیاہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”۔مودی ڈھاکہ میں جاکر فخراً اعلان کرتا ہے کہ وہ ہم ہی تھے جنہوں نے آپ پر احسان کیا اور بنگلہ دیش بنوا ڈلا۔مگر ادھر ہمارے لیڈران مودی کی دوستی میں پاگل پن کی حدوں کو بھی کراس کیے ہوئے ہیں امریکی اسرائیلی بھارتی و دیگراسلام دشمن سیکولرطاقتوں کی ناپاک عزائم رکھنے والی چوکور پاکستان کی سا لمیت کے درپے ہے۔انھیں ہماری پاک چائنہ دوستی بھی ایک نظر نہیں بھاتی۔پاک چائنہ کاریڈور تو انھیں اپنی موت کا پیغام محسوس ہوتا ہے ۔
انھیں بخوبی علم ہے اگر پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا تو پھر سامراجی ملکوں سے قرضے اور اسلحے لینا بند کر دے گا اور اس میں ان کا سرا سر نقصان ہے۔دوسری طرف ممبران اسمبلی نے ایک جھٹ پٹ قرار داد جسے “ڈکیتی واردات”کہا جارہا ہے کے ذریعے اپنی تنخواہوں میں ساڑھے چار سو فیصد اضافہ کرڈالا ہے۔اب اگر دیگر سرکاری و نیم سرکاری ملازمین ،مزدور و محنت کش طبقات کی تنخواہوں میں اسی تناسب سے اضافہ نہیں ہوپاتاتو یہ اسلامی اقدار و قوانین ،شریعت اسلامی اور آئین پاکستان کی روح کیخلاف ہوگا۔اسلام مساوات کا درس دیتا ہے اور آئین بھی تمام عام و خواص کے لیے مساوی و برابرحقوق فراہم کرتا ہے نیز حکمرانوں کو بھی سبھی سے برابری کا سلوک کرنے کا پابند بناتا ہے ۔اگر مقتدر افراد، بجٹ تیار کرنے والے و دیگر متعلقہ بیورو کریٹ ایسا نہیں کرتے تو انہیں اپنی سزا خود تجویز کر لینی چاہیے مناسب یہی ہو گا کہ اسمبلی سیشن ختم ہوتے ہی باہر سڑکوں پر آکراپنے آپ سے احتجاج کرتے ہوئے تپتی دھوپ میںمرغا بن کر کان پکڑ لیںاور صدق دل سے وعدہ کریںکہ ہم نے آئندہ اسمبلیوں میں جھک جھک اور بک بک کرنے کے لیے نہیں آنا ۔سیاست سے توبہ تائب ہو کر اپنی اولادوں سے بھی ادھر کا رخ نہ کرنے کا وعدہ لیںکہ ان سے بہت بڑ ا جرم سرزد اور کافرانہ اقدام ہو گیا ہے۔
کہ خود تو اسمبلیوں کی ممبر شپ سے اپنے ذاتی مفادات سمیٹتے رہے مگر کسی غریب ملازم ،مزدور،کسان کی اشک شوئی کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں حتیٰ کہ چپ کا روزہ رکھ لیااس طرح سے غریب عوا م کی دشمنی کی چیمپئن شپ با آسانی جیت کر بے حسی کے مادھو کہلانے کی ضلالت سر پر خود ہی تھونپ ڈالی اب غریب ڈھول پیٹیں یا سینہ کوبی کریں ،آنسوئوں کے دریا بہائیںیا سمندر ،جلوس نکالیں یا جلسہ کریں پھر کچھ بھی تو نہ ہوسکے گا ابھی وقت ہے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلیں اور ممبران سے ان کی ذاتی مراعات کے برابر اپنے لیے بھی معاوضہ جات کا اعلان کروائیں۔گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں کی طرح بعد میں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ماں بھی دودھ نہیں دیتی جب تک بچہ چیخ و پکار نہ کرے اور یہ ٹھہرے مغرور ظالم جاگیردار ،تمندار ،نودولتیے سرمایہ داراور وڈیرے کہ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے “اب پسے ہوئے طبقات کی ہمت ہے وہ اپنے مطالبات بھرپور احتجاج سے منوا سکتے ہیں۔” جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہو جائے گا”لوہا گرم ہے ذرا سی چوٹ سے جدھر چاہو گے مڑ جائے گاکہ اب نہیں تو پھر کبھی نہیںممبران نے سرکاری بنکوں سے تازہ ڈکیتی ماری ہے اپنی تنخواہیں بڑھائی ہیں آپ کی کیوں نہ بڑھائیں۔کیا سرکاری خزانہ ان کی خالہ کا باڑا ہے۔شیر کو آپ نے ووٹ دیے اب خود شیر بن کے نکلیںاپنے مطالبات منوانے کے لیے ممبران کو تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور کرڈالیں۔یہ کاغذی بیلٹ پیپر پر چھپا شیر تھاسرکس والا بھی نہ۔ممبران شیر تو کیا بھیڑ اور گیڈر کا بھی دل نہیں رکھتے غیر ملکیوں کے خلاف کیا احتجاج کریں گے۔اسمبلی میں تو کیا بو لنا تھا اپنے لیڈروں کے آگے بو لتے بھی زبان تھتلاتی ہے آپ ہی فتح مند ہوں گے اگر ڈٹ گئے تو کامیابی وگرنہ رسوائی ہی رسوائی۔
اب ہماری جنگ آخری۔ مورچہ چھوڑ نہ جائے کوئی۔
تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری