تحریر: طارق حسین بٹ
تین نومبر ٢٠٠٧ کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک ایسے دن کی یاد دلاتا رہے گا جس دن جنرل پرویز مشرف نے ملک پر ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بر طرف کر کیانھیں ان کے اپنے گھر میں نظر بند کر دیا تھا۔پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں اس آمرانہ حکم پر سراپا احتجاج بن گئیں اور عدلیہ کی بحالی کی ایک ایسی جنگ لڑی گئی جس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔وکلاء نے جس طرح اس غیر آئینی اقدام کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے وہ اپنی جگہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن تو اس تحریک کو دنیا کی سب سے منظم اور انوکھی تحریک کا نام دے رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی تحریک نے ہی جنرل پرویز مشرف کی آمریت کو شکستِ فاش دی تھی۔ وہ افتحار محمد چوہدری کو صحرا میں ایک ایسی آواز سے تشبیہ دیتے تھے
جس نے آمریت کے بت کو زمین بوس کیا تھا۔ وکلاء نے اس تحریک کو جس طرح اپنا خون دیا اور لا تعداد قربانیاں دین وہ ہماری تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔ پی پی پی فروری ٢٠٠٨ کے انتخابات کے نتیجے میں بر سرِ اقتدار آئی لیکن وہ بھی چیف جسٹس کو بحال کرنے میں حیل و حجت سے کا م لے رہی تھی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ چیف جسٹس ان کی حکومت کو مصائب کا شکار کریں گئے اور انھیں من مانیاں کرنے کی اجا زت نہیں دیں گئے۔اسی دوران میاں محمد نواز شریف نے مارچ ٢٠٠٨ میںاسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دیااور پھر اسی لانگ مارچ کی بدولت معزول چیف جسٹس کی بحالی عمل میں آئی ۔ اس بحالی کو عدلیہ کی آزادی کا نام دیا گیا ۔ عوام کو بھی اس آزاد عدلیہ سے بھی لا تعداد توقعات وابستہ کر لی تھیںاور ان کو یقین تھا کہ آزاد عدلیہ کرپشن کے مقدمات میں کرپٹ عناصر کو سخت سزائیں سنائے گی لیکن عوام کی یہ آرزو تشنہ ہی رہی اور کرپٹ عناصر عدلیہ سے بچنے میں کامیاب رہے۔
یہی وہ مقام تھا جہاں مک مکائو کی سیاست نے جنم لیا اور سیاسی مخالفین کو قانون کے شکنجے میں کسنے سے احتراز برتا۔نیب کے ادارے میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقدمات روک دئے گئے تا کہ باہمی جنگ و جدل اور تنائو کا ماحول پیدا نہ ہو سکے۔یہ ایساکلچر تھا جسے عوام نے بڑی ہی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔وہ ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے تھے لیکن ان کی یہ خواہش ملکی سیا ست میں مک مکائو کی پالیسی کی وجہ سے تشنہ رہ گئیں اور یوں عدلیہ سے وابستہ امیدوں پر اوس پڑنا شروع ہو گئی۔
عدلیہ دھیرے دھیرے اپنا وقار کھوتی گئی اور عوام عدلیہ کے فیصلوں سے ناخوش ہوتے چلے گئے۔وہ عدلیہ جسے انھوں نے بڑی قربانیوں کے بعد آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا تھا بے توقیر ہوتی چلی گئی۔اس میں اس وقت سب سے زیادہ اعتراضات ت وارد ہوئے جب اس نے دھشت گردی کی جنگ میں گرفتار ملزمان کو ضمانتوں پر رہا کرنا شروع کر دیا اور انھیں کسی بھی قسم کی سزا دینے سے معذرت کر لی۔پنجاب کے گورنر کا قاتل اعجاز قادری اس کی سب سے واضح مثال ہے جس کا مقدمہ ابھی تک سنا نہیں جا رہا کیونکہ دھشت گرد عناصر ججز کو جان سے مارنے کی دھمکیاں لگاتے رہتے ہیں جس سے خوفزدہ ہو کر ججز انصاف کے منصب سے انصاف کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ جب تک دھشت گردوں کو سخت سزائیں نہیں سنائی جائیں گی دھشت گردی پرقابو نہیں پایا جا سکے گا ۔ یہ چو مکھی لڑائی ہے جسے پارلیمنٹ،عدلیہ اور فوج کو یک زبان ہو کر لڑنا ہو گا تب کہیں جا کر کامیابی نصیب ہو گی۔،۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پشاور سکول میں معصوم فرشتوں کے سفاکانہ قتل کے بعد پرانے پاکستان کی جگہ ایک نیا پاکستان معرضِ وجود میں آ چکا ہے جس میں دھشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دھشت گردوں کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ ہر پاکستانی کے دل میں سلگ رہی ہے۔وہ دھشت گردوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ انھیں عبرت نا ک سزائیں دی جائیں۔اس وقت دھشت گردی کے بہت سے مجرم جیلوں میں بند ہیںا جھنیں ہماری عدالتیں سزا دینے سے قاصر ہیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے آل پارٹی کانفرنس میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بات کی ہے تا کہ مقدمات جلدی نپٹائے جائیں اور پھر جان سے مار دئے جانے کا جو خوف ججز کے اند رموجود ہے اس سے بھی چھٹکارا پا لیا جائے۔ایک فوجی ایک جج کی طرح نہیں سوچ سکتا کیونکہ دونوں کے منصف اور سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا ہے۔
ایک فوجی ساری عمر موت سے آنکھ مچولی کرتا رہتا ہے اور اسی آنکھ مچولی میں اسے کبھی کبھی موت کے ساتھ بھی بغل گیر بھی ہونا پڑتا ہے جبکہ ایک جج کی سوچ، ما حول اور انداز بالکل مختلف ہوتاہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوجی عدالتیں دھشت گردی کے مسئلے سے نپٹ سکتی ہیں تو اس کا جواب ہے کہ ہاں دھشت گردوں کی کمر توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ دھشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کی جائیںاور اس میں ہر اس مجرم کو سزا دی جائے جو قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے۔میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ صرف دھشت گرد وں کے مقدمات ہی ان عدالتوں میں کیوں سنے جائیں بلکہ وہ تمام افراد جھنوں نے پاکستان کی دولت لوٹی ہے اور ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کیا ہے ان کے مقدمات بھی انہی عدالتوں میں سنیں جائیں اور انھیں عبرتناک سزائیں سنائی جا ئیں تا کہ یہ ملک کرپشن کے گند سے پاک ہو جائے۔
عام عدالتوں میں چونکہ حکومت استغاثہ ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کو نیب میں کھینچنا نہیں چاہتی اس لئے کسی بھی کرپٹ فرد کو جواب دہ نہیں بنایا جا سکتا۔یہ سچ ہے کہ آل پارٹی کانفرنس میں سب جماعتوں میں فوجی عدالتوں کے قیام پر اپنی حمائت کا یقین دلایا ہے لیکن اب بہت سی جماعتیں اپنے عہد سے منحرف ہو رہی ہیں جن میں تحریکِ انصاف اور پی پی پی سرِ فہرست ہیں۔در اصل ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف کچھ مقدمات پہلے ہی دھشت گر دی کی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں لہذا انھیں خوف ہے کہ اس طرح انھیں پھانس نہ لیا جائے ۔ایک خوف ہے جو ان کے اندر پرورش پا رہا ہے جس کا واضح اظہار آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں بھی کیا ہے جس سے ہر چیز واضح ہو گئی ہے ۔،۔
آئین عوامی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے لہذا یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آئین عوام کی امنگوں پر پورا نہ اترے۔آئین میں ترامیم بھی عوامی امنگوں کو مدِ نظر رکھ کر کی جاتی ہیں۔بدلتے زمانوں میں جب زمینی حقائق بدل جاتے ہیں تو نئے قوانین مدون کئے جاتے ہیں تا کہ عوام کے اندازِ زیست میں آسانی پیدا ہو سکے۔آئین عوام کو مجبور بنانے یا انھیں مشکلات سے دوچار کرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ آئین کا واحد مقصد عوام کو تحفظ دینا اور ان کی زندگیوں میں آسا نیاں پیدا کرنا ہوتا ہے یہی وجہ ہے جب غیر معمولی حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر ان حالات میں غیر معمولی فیصلے بھی کئے جاتے ہیں ۔اسلام میں قصاص کا قانون معاشرے کے ارتقا اور تحفظ کیلئے ہی رکھا گیا ہے۔ہر شخص کو اس بات کو پلے باندھ لینا چائیے کوئی چیز بذاتِ خو د آئینی یا غیر آئینی نہیں ہوتی بلکہ قانون سازی اور آئین سازی اسے آئینی اور غیر آئینی کا مقام عطا کرتی ہے۔یورپ میں ہم جنسوں سے شادی آئینی و قانونی قرار پاتی ہے
جبکہ ہمارے ہاں اسے لواطت سے تشبیہ دے کر قابلِ سزا سمجھا جاتا ہے لہذا ثابت ہوا کہ قوانین اپنے معاشرتی ڈھانچے اور دینی سوچ کے مطابق طے پاتے ہیں۔١٦ دسمبر کے بعد پوری قوم کی آواز ہے کہ دھشت گردوں کو سخت سے سخت سزائیں سنائی جائیں تا کہ معاشرے میں امن و سکون اور تحفظ کی فضا پیدا ہو سکے ۔جنرل راحیل شریف اس ضمن میں عوامی خوا ہشات کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے۔ پاکستانی عوام ان کی اس تجویز پر مکمل طور پر ان کے ساتھ ہیں۔ہماری پارلیمنٹ کی پہلی ترجیح یہ ہونی چائیے کہ وہ عوامی خواہشات کا ادراک کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے کیونکہ یہ وقت کٹ حجتیوں اور پوائنٹ سکورنگ کا نہیں ہے بلکہ عمل کا وقت ہے ۔پاک وطن کے بیٹو ں کا لہو جس بے دردی سے بہا یا گیا ہے وہ پالیمنٹ سے فوری عمل کا تقاضہ کر رہا ہے لہذا پارلیمنٹ کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ دھشت گردوں سے اس لہو کاحساب لینا چاہتی ہے ۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ