تحریر : ڈاکٹر ا یم ایچ بابر
دنیا کی کوئی قوم اُس وقت تک ترقی کے زینے پر قدم نہیں رکھ سکتی جب تک وہ عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہو ہمارے ہاں جتنی جدوجہد کر سی بچا نے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کا نصف بھی اگر تعلیم کی بڑھوتری پر توجہ دی جائے تو پاکستان میں شرح خواندگی حقیقی طور پر بڑھ سکتی ہے۔ مگر ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے اس طرف توجہ دینا تو درکنار کبھی سوچنا بھی ہمارے معزز لیڈران قوم اپنی توہین سمجھتے ہیں حکومتی دعویٰ ہے کہ پاکستان میں لٹریسی ریٹ 65 فیصد ہے دراصل ایسا کچھ بھی نہیں ہے مفت میں سب اچھا کا راگ الاپا جا رہا ہے۔
کبھی آپ دیہی علا قو ں کے سرکا ری تعلیمی اداروں کا جائزہ لے کر دیکھیں جہاں استاد غائب سہولتیں ناپید اور بچے کسی حقیقی راہنمااستا د کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور طفلان ملت اس امید پر کہ شائید ہم بھی پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن پائیں گے مگر کب کیو ں اور کیسے ؟ ماضی میں اسا تذہ کلی طور پر پروفیشنل تھے اور آج کا استاد کلی طور پر کمر شل ہوچکا ہے ۔تعلیمی زبوں حالی کا عالم الفاظ میں احاطہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہمارے تعلیمی اداروں کی حالت دیدنی ہے آپ کبھی دیہی علاقہ جات کے سکولوں کا وزٹ کریں تما م راز کھل جائے گا کہ وہاں معیار تعلیم کیا ہے ۔ قا ر ئین محترم راقم کو چند اضلاع کے دیہی تعلیمی اداروں میں جانے کا اتفا ق ہوا ہے جہاں کے مناظر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔
کہیں 400 سے زیادہ طلبا کی تعداد دیکھی جہا ں صرف ایک استاد اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کر رہا ہے اور کہیں 3طلبا پر پانچ استاد فائز ہیں کہیں بلڈنگ کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ دیکھی اور کہیں بلڈنگ سرے سے ہی غائب کھلا آسما ن میر ے وطن کے نو نہالوں کا سائبان ہے ایک رپورٹ کے مطابق غیر سرکاری رپورٹ ہے کے پاکستان میں شرح خواندگی 58فیصد ہے اور حکومت پاکستا ن کا دعویٰ ہے کہ شرح 65ہے گزشتہ پانچ سالو ں میں وطن عزیز کی محنتی اور جفاکش قیادت کی ان تھک محنت اور ریاضت کے بعدخواندگی کی شرح صرف ایک فیصد بڑھ پا ئی ہے آج بھی لاکھو ں بچے سکول داخل نہیں ہیں جن میں اکثریت دیہا ت میں بسنے والے بچوں کی ہے جن کا دلپسند مشغلہ گلیوں میں گھو منا اور کھیتی باڑی میں والد ین کا ہا تھ بٹانا جانوروں کو چارہ ڈالنا چوہدریوں نمبر دارو ں جاگیر داروں اور وڈیروں کی چاکری کرنا ہے ۔کیونکہ ہمارے اشرافیہ چاہتے ہی نہیں کہ کمی اور ہاری پڑھ لکھ سکیں جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ غیر سرکاری رپورٹ شرح خواندگی 58 فیصد بتاتی ہے جبکہ سرکاری دعویٰ 65 فیصد کا ہے۔
اور حقیقتاً یہ شر ح 28سے 35فیصد ہے حکومت پاکستان نے 2015 تک لٹریسی ریٹ میں 7فیصد اضافے کا دعویٰ کیا تھا مگر پانچ سا ل کی تگ و دو کے بعد شرح خواندگی میں صرف ایک فیصد اضافہ ہو پایا ۔ اور اس پر طرہ یہ کہ ھم نے خواندہ لوگو ں میں انکا شمار بھی کر لیا ہے جو صرف اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتے ہیں یہ اعداد وشمار کا ہیر پھیر کب تک چلے گا؟ حکمرانوں کے اپنے بچے تو بیرون ممالک میں پڑھیںاور غریب کے بچوں پر کو ئی دھیان دینا بھی مناسب نہ سمجھے ۔
کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے جب حکومت ہی آنکھیں موندھ لے تو اساتذہ بھی اپنی کرسیوں پر اونگتے ہی نظر آئیں گے نہ ایک پنجابی کا مقولہ ہے کہ ۔َ “کھسماں با ہجھ ساون ترھیایاں ” جب کو ئی پوچھنے والا نہ ہو تو یہی عالم ہوتا ہے۔
اگر ہم لٹریسی ریٹ پر توجہ دیں لیں تو بخدا پاکستان معاشی ،معاشرتی طور پر درخشاں ہو کر چمکے اگر ہم لڑیسی ریٹ کی بہتری کر لیں تو غربت افلاس بیروزگاری کے جن قید کئے جا سکتے ہیں مگر ہم ایساکریں کیوں ؟ترقی یافتہ ممالک جی ڈی پی کا 6فیصد تعلیم کے لیے وقف کرتے ہیں اور پاکستا ن میںیہ شرح 2فیصد ہے المیہ یہ ہے کہ وہ دو فیصد بھی پور ا خرچ نہیں کیا جاتا گزشتہ سال حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 40لاکھ بچے کو سکو ل میں داخل کیا جائیگامگر یہ صرف دعوے کی حدتک ہی رہا اور یہ اعلان بری طرح ناکا م ہو گیا آج بھی وطن عزیز کے 5سے 9سال تک کی عمر کے بچے لاکھو ں کی تعداد میں سکول سے باہر ہیں اور ہزاروں سکول بنیادی سہولتوں سے ناآشنا ہیں گلیوں محلوں میں جنرل سٹوروں کی طرح کھلنے والے پرائیوٹ سکولوں نے بھی تعلیمی گراوٹ کو اپنا منشور بنایا ہواہے اور بھاری بھرکم فیسیں لے کر بھی قوم کے نونہالوں کے دامن خالی ہیں اس کی بنیادی وجہ پرائیوٹ اساتذہ کے لیے کوئی میرٹ مقرر نہ کرنا ہے ہزاروں ایسے پرا ئیوٹ تعلیمی ادارے موجود ہیں جہا ن مڈل میٹرک ٹیچر پڑھا رہے ہیں۔
باہر بورڈ پر لکھا جات ہے مکمل انگلش میڈیم آکسفورڈ سلیبس کیا حکومتی سطح پر ایسے اداروں کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا ہے ؟پرائیوٹ سکولوں میں تعینات ایف اے ، بی اے ، یا اس سے زیادہ پڑھے لکھے اسا تذہ کو حکومتی نگرانی میں مفت پروفیشنل تربیت کا اہتمام کر نا چاہیے تا کہ وہ بچوں کو انکی نفسیات سمجھتے ہوئے زیور تعلیم سے آراستہ کریں جس طرح فیکٹری ورکرزکے لیے کم ازکم تنخواہ 14ہزار مقر ر ہے۔
اسی طرح پرائیوٹ ٹیچر کے لیے بھی ایک معیار مقرر ہونا چاہیے قسم بخدا ایسے پرائیوٹ سکول بھی راقم نے دیکھے ہیں جہاں استاد کی تنخواہ سن کر انسان سُن ہو جاتا ہے 1500 سے 4500 یہ حد ہے تنخواہ کی پرائیوٹ سکولوں میں اور سرکاری سکولوں میں توجہا ں تنخواہ بہت ذیادہ مگر کا م ؟؟؟نہ ہی پو چھیں تو بہتر ہے خدارا کچھ کرلیں ارباب اختیار اپنی تعلیمی حالت کو بہتر کر لیں ورنہ جو کچھ یہاں پہلے ہوتا آیا ہے وہی ہوتا رہے گا۔
امرا ء کے چشم وچراغ ڈگریا ں خرید کر اعلیٰ عہدوں اور ایوان حکومت میں پہنچ جائیںگے اور غریب کا مقدر اُن کی کوٹھیوں کے فرش اور گاڑیوں کے ٹائر دھونے سے آگے نہیں بدل پائیں گے۔ ہم صرف اپنی شرمناک لٹریسی ریٹ اور بد ترین دولت کے نشے سے چُور ہو کر اقوام عالم کے سامنے شرمندہ ہو چکے ہیں۔
اب دنیا جان چکی ہے کے سب سے زیادہ ان پڑ ھ گریجوایٹ کس ملک میں میسر ہیں اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے بیروزگار بھی اُسی مملکت کے باشندے ہیں یہ آکسفورڈ سلیبس ، یہ امریکن سلیبس ، یہ فرنچ سلیبس خداکے لیے مستعارکی تعلیم کو چھوڑ کر اپنی شناخت پیداکریں کوئی ایسا نظام تعلیم بنائیں جس میں دینی ، عصری ، عسکری ،اور سائنسی تقاضے پورے ہوتے ہوں میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میری دھرتی کوقدرت نے ا یسے انمول ہیروں سے نوازا ہے کہ صرف حکومت جوہری بن کر انہیں تلاش کرے پاکستا ن کے غریب بچے دنیا کے ذہین ترین بچے ہیں مگر سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں ان کو سہولیات بہم پہنچائیں پھر دیکھیں لٹریسی ریٹ کہاں پہنچتا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر ا یم ایچ بابر
Ph: 0334-4954919
Email. mhbabar4@gmail.com