تحریر: خورشید حیات، بلاس پور چھتیس گڑھ
ہراُردو رسالہ کی اپنی ایک کائنات ہوتی ہے ۔ جس کے ہر ورق میں ہم زندگی کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہیں ۔ سانس سانس دھڑکن اور ورق ورق زندگی۔ زندگی ہے تو ادب میں حرارت ہے جو کبھی تیز ہوتی ہے تو کبھی مدھم مدھم سی۔ اکیسویں صدی اردو کے ادبی رسائل کی صدی ہے ۔اکیسویں صدی ناول اور افسانے کی روحانی ردا سے بھی پہچانی جانے لگی ہے کہ ہر تحریر ، اپنے بے جان سے دکھائی دینے والے ” بدن ”کے ساتھ اپنی ” روح”کو بھی ساتھ لے کر آتی ہے ۔ اکیسویں صدی کا قاری ، تہذیبی میراث سے بے بہرہ اور خود نمائی اور خود ستائی میں مصروف تخلیقی فنکاروں / مدیروں سے دور بھاگتا ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ ادب درخت کے رکوع کی حالت میں جو صورت نوعّیہ ہوتی ہے ، وہ اپنے عصر کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ماورائے طبیعاتی دور میں بھی سفر کرتی ہے۔
شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ دربھنگہ ٹائمز کے ناول نمبر کی ساری کاپیاں پندرہ دنوں میں فروخت ہو گئیں ۔ منصور خوشتر کے رسالہ ” دربھنگہ ٹائمز ” کا ناول نمبر قاری کی روح تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہے ۔ جنوری 2005میں جب یہ اخبار کی صورت لئے صحافت کی نگری میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا تو اس وقت یہ احساس جاگا تھا کہ منصور خوشتر کے اندر بیٹھا صحافی / شاعر ادیب ، ادب ـ تہذیب جنتوں کا اک نیا اعتبار بن جائے گا ۔ آج نئی صدی میں انہوں نے ایسا ہی کچھ کر دکھایا ہے ۔ منصور خوشتر کے رسالہ کا ناول نمبر اپنی سند آپ ہے ۔ میں کیا بولوں جی ، آج کے منصور کہ آپ نئے ادب سماج کو توانائی بخشنے والے خوشتر بھی ہیں اور ادب زمین کی خوش آئند آواز بھی ۔ منصور خوشتر کی پوری ٹیم نے اس ناول نمبر میں روح عصر کو سمو کر عصری مطالبے کو پورا کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ۔
اگر میں یہ کہوں کہ متھلا نچل میں ادب تہذیب کی راجدھانی دربھنگہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ بہار کے اس پانچویں بڑے شہر کو میں ادب و صحافت کے پانچویں ستون کے روپ میں دیکھتا ہوں ۔ یہ وہ شہر ہے جہاں مزاروں کے کتبے ، اور علماؤں کی گلیاں آج بھی اپنی داستان سناتی ہیں۔ زبان کوئی بھی ہو ماں کی گود میں کھیلتی ہے، سنورتی ہے اور نکھر نکھر جاتی ہے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ دربھنگہ شہر ہو یا اور کوئی شہر اس کی تاریخ میں ان ماؤں کا ذکر نہیں ملتا جنہوں نے بھیکا شاہ جیلانی ، مولانا بشارت کریم ، عبد الحمید ، مظہر امام ، لطف الرحمٰن ، ڈاکٹر علی اشرف ، قمر اعظم ہاشمی ، اوویس احمد دوراں وغیرہ سے لے کر جمال اوویسی تک کو ایک نئی پہچان دینے کا ذریعہ بنیں ۔
کیا کہیں ادب سماج کے مورّخ ، محقّق یا پھر ناقد کو ، اسے ” جنس ” میں عورت ہی عورت تو نظر آتی ہے مگر وہ ماں نظر نہیں آتی جس نے اس کی تخلیقی سوچ کو نیا آسمان دیا ۔ ادب بہت تیزی اور خاموشی سے عصری حسیت کی چادر کو بدلتا رہتا ہے اس عصری حسیت میں بعض ناول نگاروں کے یہاں صرف اوشو کے سمبھوگ سے سمادھی تک کا سفر ہی دکھائی دیتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ ادب کی تھالی میں عورت کے جسم کو کب تک پروستے رہیں گے ۔اس عورت کو جس نے اسے جنم دیا۔
اردو میں ناول نگاری کا مقدّر ، پچھلے موسم میں کچھ ایسا رہا تھا کہ چند انے گنے تخلیقی فنکار تاریخ کے صفحات میں گم ہو رہے تھے۔ مگر آج نئی صدی میں منظر کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دے رہا ہے ۔ 21ویں صدی میں کئی اہم ناول سامنے آے ہیں ـ جس پر گفتگو کا اک نیا سلسلہ ” دربھنگہ ٹائمز ” کے ناول نمبر سے شروع ہو چکا ہے ،اور ساتھ میں اک شور بھی ہے جو ناول کے باشعور قاری کا پیچھا کر رہا ہے ـ آوازیں جب ناویلا/ ناول کے ” پاٹھک منڈی ” سے ابھرتی ہیں تو اردو ناول کو اک نیا اعتبار ملتا ہے اور جب یہی آوازیں ادبی منڈی کے الگ الگ ٹوکروں میں بیٹھے ، ناول نگار کی ” بڑی زبان سے نکلتی ہے تو ناول اور ناول نگار دونوں کا اعتبار مجرْوح ہوتا ہے ـ سچ تو یہ ہے کہ اس صدی کا قاری ٹوہا ٹوئی کے بعد ہی کسی ناول پر اپنی رائے قائم کرتا ہے ـ
چار سو اڑتالیس صفحات کے اس خصوصی شمارہ میں اردو ناول کے حوالے سے مشرف عالم ذوقی { اردو ناول کی گم ہوتی دنیا } ، عبد الصمد {اردو ناول کے ساتھ دو چار قدم } ، حقانی القاسمی { پلیتہ } ، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی { اکیسویں صدی میں اردو ناول } جمال اوویسی { ناول برستے نہیں } خورشید حیات { قصہ اردو ناول کے ایک درویش کا } ، فیاض احمد وجیہ { آء کنفیس } سلیم انصاری { ایوانوں کے خوابیدہ چراغ پر ایک نظر } ، ڈاکٹر اقبال واجد { حسین الحق کے ناول کا ساختیاتی مطالعہ } ، ڈاکٹر عشرت ناہید { حیات الل? انصاری کا گھروندہ ـ ایک مطالعہ } ، سید احمد قادری { سرور غزالی کا ناول دوسری ہجرت } ، رحمان عباس { ناول کا فن اور اردو ناول کی تنقید کا المیہ } ، ابو بکر عباد { اردو ناول ارتقائ سے ترقی پسند تحریک تک } مناظر عاشق ہرگانوی { ہم عصر اہم ناولوں کے تنقیدی شذرات } ، شمیم قاسمی ، ڈاکٹر زرنگار یاسمین ، ڈاکٹر قمر جہاں اور واحد نظیر کے علاوہ کئی ریسرچ اسکالرز کے فنی اور تخلیقی انداز میں لکھے گئے مضامین / مقالے ، حوض دہ در دہ سے باہر نکلتے دیکھائی دیتے ہیںـ
تنقید میں تحقیق کے عناصر بھی جب موجود ہوتے ہیں تو تنقید بھی معتبر ہوئی جائے ہے ـ مشاہیر تخلیقی فنکاروں سے منصور خوشتر نے جو مکالمے قائم کئے ہیں ان میں مشرف عالم ذوقی ، عبد الصمد ، شموئل احمد ، غضنفر ، ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی ، فیاض احمد وجیہ ، نعیم بیگ ، مشتاق احمد نوری ، سید احمد قادری ، شہاب ظفر اعظمی ، عطا عابدی ، جمال اویسی کے جوابات صحیح سمت میں سفر کرتے دیکھائی دیتے ہیں ـ
:: میں عورت کو کمزور نہیں دیکھ سکتا ـ میرے پاس کسی کمزور عورت کا کوئی تصور نہیں ـ اب اکیسویں صدی میں عورت کے نئے کردار پر گفتگو کا آغاز ہونا چاہئے” ـــ مشرف عالم ذوقی
:: ” مجھے بڑی حیرت ہے کہ جہاں اردو میں آج بھی فکشن کی اپنی بعض سچائیاں ہیں وہاں اس نوع کے سوالات ہمیں اس زمانے میں لے جاتے ہیں جب حسینہ کانپوری کے نام سے ایک خاص قسم کا ناول لکھا جا رہا تھا ـ اگر یہ ناول کی دنیا میں کسی طرح کا انقلاب تھا تو مجھے کہنے میں کوئی مسلہ نہیں ہے کہ اب ناول لکھا ہی نہیں جا رہا ہے ،،،ہاں عورت اور جنس کے باب میں یہ کہنا ہے کہ اس نوع کا سوال بیمار ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے ـ عورت ، جنس اور پرش کیوں نہیں ؟ اور جنس سے کیا مراد ہے ، ننگی عورت ، مباشرت ـــــ ” فیاض احمد وجیہ :: ” ماضی میں بھی جنس اور عورت کے بغیر اردو میں معیاری ناول لکھے گئے ہیں اور مستقبل میں بھی لکھے جائیں گے ” ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی
:: ناول کی کائنات بغیر عورت کے کیسے مکمّل ہو سکتی ہے ــــ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
ہر بڑا ناول اپنا ایک نیا تخلیقی ویڑن ساتھ لے کر آتا ہے جو معاشرے کی جہت تبدیل کرنے میں اہم رول نبھاتا ہے ـ مگر جب ناول نگار دم توڑتی انسانیت ، سکڑتی ہوئی ندیوں ، کٹتے ہوئے درختوں ، سوکھتے ہوئے کنوؤں ، فٹ پاتھ پر ٹاٹ میں لپٹی زندہ لاشوں ، بھوکی ننگی نسلوں ، عصری سماجی تہذیبی زندگی کی دھندلی ہوتی لالٹین کو چھوڑ صرف جارجٹ کے دوپٹے سے عورت بدن کو جنسی تلذز اور لار ٹپکانے کی خاطر دیکھتا ہے تو وہ زندگی کے اس ” دائمی لمس ” سے محروم ہو جاتا ہے جو اپنے عصر کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ ماورائے عصر بھی ہوتا ہے ـ دل و دماغ میں جب کسی ناول نگار کے مٹی بدن عورت ہی سوار ہو جائے تو وہ پر پیچ راستوں سے ٹین کی چھتوں کے نیچے خون تھوکنے پر مجبور کالی ماٹی بدن عورتوں کے پریواروں کو کیوں دیکھے ؟
جھاڑ کا ازار بند باندھے ایک ناول نگار کو ” ایک تازہ ” ـــ ” کی تلاش ہے ـ ان کی واردات قلبی پر مجھے افسوس آتا ہے ـ اس شہر کی نئی تلاش کا مطلب ایک نئے “مہا پرش ” کی تلاش ، جس کے بعد کوئی نہیں آنے والا ہے
دیکھئے ایک تازہ “ـــــ” کی تلاش میں ان کے ناول کے کردار کے مکالمے :ـ
” جھانٹ کا کھاتا ”
” سالا سانڈے کا تیل چوتیا بنانے کے لئے ہے ”
” مادر ـــ ہیں سب ”
شعور کی مستند تعمیری دستاویز ، تخلیقی عمل کی اساس ہے ـ مگر آج کا یہ کیسا منظر ہے ، قاری کے سامنے یہ کونسی زبان پروسی رہی ہے نئی صدی کے ناول نگار ؟
دیکھئے آج کے ایک اور ناول نگار اپنے ناول میں کیا فرماتے ہیں :ـ
سیکس بدن کی کھڑکیاں کھولتا ہے ـ جس سے روح میں روشنی پھیلتی ہے ـاس روشنی سے روح کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں ـ رحمان عباس کے ناول کا کردار متواتر جنسی عمل سے گزر کر ایک نیا ورلڈ ریکارڈ بنانا چاہتا ہے ـ
مجھے ?? کے دہے کی ایک انگریزی فلم یاد آ رہی ہے ـ جو انگلش کے ایک مشہور ناول پر بنی تھی ـ جس میں ہیرو ـ ہیروئین سمندر کنارے ہنی مون پر جاتے ہیں اور پیٹ کی بھوک کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف سیکس کی پیاس بجھانے میں جٹے رہتے ہیں ـ پانچ دنوں میں یہ خوبصورت دکھائی دینے والے اجسام ڈھانچہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کی موت ہو جاتی ہے ـ سمندر کی لہریں انہیں اپنی بانہوں میں لے لیتی ہے ـ
حْسن کی بھی اپنی شریعت ہوتی ہے ـ ادب میں شجر ممنوعہ کچھ بھی نہیں ـ مگر موضوع کو برتنے کا ہنر بھی آنا چاہیے ـ ناول کے نام پر ادب کی تھالی میں بعض حضرات وہی پروس رہے ہیں جسے ہم ساودھان انڈیا کے الگ الگ ایپی سوڈ میں دیکھتے رہتے ہیں ـ
احساس اور اظہار جب صرف جنسی لذت تک محدود رہ جائے تو اس کی موت اس فلم کے ہیرو ـ ہیروئن کی طرح عنقریب ہے ـ
جہاں ایک طرف ایسے ناول کے باب پڑھنے کو ملے وہیں دوسری طرف سید محمّد اشرف ، عبد الصمد ، نعیم بیگ ، مشرف عالم ذوقی ، نور الحسنین ، اقبال حسن خان ، وغیرہ کا دم غنیمت ہے ـ اس خصوصی شمارہ میں سرحد کے اس پار کے کئی اہم ناول نگار پر اگر ایک مضمون ہوتا اور اردو کے وہ تخلیقی فنکار جنہوں نے انگریزی زبان میں ناول لکھے ہیں { نعیم بیگ } کے ساتھ ساتھ اردو ہندی ـ انگریزی ناولوں کا تقابلی جائزہ بھی پیش کر دیا جاتا تو اس ناول نمبر کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ـ
اردو کے جوان سال شاعر / ادیب / صحافی منصور خوشتر اور کامران غنی صبا کو ڈھیر ساری مبارکباد ـ
تحریر: خورشید حیات، بلاس پور چھتیس گڑھ