مفید اشیاء کی قدربڑھتی جاتی ہے اور غیرمفید اشیاء کی قدر گھٹتی جاتی ہے۔ تاریخ کا عمل یہی بتاتا ہے۔ جبھی تو جنگجو بیٹوں کی پیدائش کی خواہش بڑھتی اور کمزور بیٹیوں کی پیدائش ان کی زندہ تدفین پر منتج ہوتی رہی۔
ادیب اگر سقراط، عمر خیام، جبران خلیل، ورڈزورتھ اور اقبال کی طرح ’’اوپر سے‘‘ رہنمائی لے رہا ہو تو نبیوں کا وارث ہوتا ہے۔۔۔ لیکن وارثوں کے ساتھ مسلمانوں نے عموماً بُرا ہی سلوک کیا ہے، علیؓ کے وارث حسینؓ ہوں یا محمد علی جناح کی وارث فاطمہ ہو یا بھٹوکی وارث بینظیر، تاریخ یہی بتاتی ہے۔
ہم کسی بھی حیدر علی کے وارث کو ’’ایک دن‘‘ سے زیادہ ’’شیر‘‘ کی سی زندگی ہرگز جینے نہیں دیتے۔ کسی سراج الدولہ کو گدھوں کے حوالے کئے بغیر نہیں رہتے مگر یزید سے لے کربابر اور اکبر کے نااہل جانشینوں تک، ہر خونخوار درندے کو سینکڑوں سالوں تک اپنے ماتھے کا جھومر بنائے رکھتے ہیں۔
لینن کی سوچ آج بھی روسیوں کیلئے مینار نور ہے۔ گاندھی آج بھی مہاتما ہے لیکن مسلمانان عالم بالعموم اور مسلمانان پاکستان بالخصوص اقبال کو صرف 1930ء کے حوالے سے خراجِ تحسین پیش کرتے یا ’’خودی کو کر بلند اتنا‘‘ پڑھ کر یاد کرتے نظر آتے ہیں اور مولانا روم سے تو ہماری کوئی واقفیت ہی نہیں۔ ابوالکلام آزاد، غالب اور عمر خیام بھی اب ’’پُرانے‘‘ ہو گئے ہیں اور دور جدید میں ’’فیض شناسوں‘‘ کی تعداد بھی دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔ مغرب سے لے کر ہندوستان، چین، روس اور جاپان تک کے معروف ادیبوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ہر قوم نے ادیب کو بنیادی طور پر روحانی، اخلاقی اور علمی حوالوں سے اپنا رہبر اور مصلح مانا۔۔۔۔لیکن مسلمان کا ایمان بہت پکا ہوتا ہے۔ وہ کسی کو ’عالم‘ اور’رہبر‘ نہیں مانتا۔اس کیلئے رہنمائی کا منبع صرف خدا کی ذات ہی رہتی ہے۔ لہٰذا دیگر اقوام ادیبوں کو جو مقام کم از کم ’’کاغذوں‘‘ میں ہی سہی، دے تو دیتی ہیں، ہم وہ بھی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فلموں کے گانے لکھنے والوں کا ’کلام‘، تھیٹر ڈرامے لکھنے والوں کا ’سکرپٹ‘ اور فلمی مصنفین کی ’سٹوریز‘ تو عوامی شہرت حاصل کر لیتی ہیں مگر بیچارے بڑے ادباء اور شعراء جیسے میرؔ، مولانا روم، اقبالؔ، فیضؔ اور غالبؔ کے کلام سمیت آغا حشر اور شوکت صدیقی کے ڈرامے اور منٹو اور اشفاق صاحب کی نثر ہمیشہ وہ ارفع اور ’’آفاقی‘‘ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے جو نٹشے، شیکسپیئر اور ٹیگور کے کام کو ان کی عوام نے دیا۔
دراصل عوام اور خواص دونوں ہی ادب کو کبھی زمینی جنس کے طور پر باعزت مقام نہیں دیا کرتے۔وہ اسے محترم اسی وقت تسلیم کرتے ہیں جب انہیں اسے ’’آسمانی یا آفاقی تحفہ‘‘ سمجھنے کی کھلی چھٹی ہو یا یوں کہئے کہ غیرمسلم معاشروں میں جب کوئی اخلاقیات، روحانیات اور عالمگیر سچائیوں سے بھرپور تحریر اپنے بیان میں ادبی رنگ لئے ہوئے ہو تو اس مخصوص ثقافت کے علمبردار آفاقی ادب کے اس شاہکار کو جھٹ سے دیوتائی تحفہ قرار دے ڈالتے ہیں۔ یہی نہیں، روحانی علوم کو ادبی شان کے ساتھ بیان کرنے والا یہ ادیب بت پرستوں کے معاشرے میں پیدا ہو تو ’’مہاتما‘‘ ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا کوئی ادیب مسلمان معاشروں میں پیدا ہو جائے تو یا تو اس کی ’’عمر بھر کی کمائی‘‘ کو کسی’’ تبریز کا جلال‘‘ آگ دکھا دیتا ہے یا وہ ہر روز صبح کے وقت محض سکولوں میں ’’گائے‘‘ جانے اور ہر 9نومبر کو ’’منائے‘‘ جانے کے سواء کسی کام کا نہیں سمجھا جاتا۔
عرض کی ناں، ہم مسلمان ہیں، پکے مسلمان۔ لہٰذا جب کوئی ہمیں مذہب، علم، دانائی اور سچائی کو جاننے کیلئے مثنوی مولوی معنوی یا ابلیس کی مجلسِ شوریٰ یا اسرارِ خودی پڑھنے کو کہے گا یا رباعیاتِ عمر خیام کی شُدھ بُدھ لینے کو کہے گا تو ہم اسی وقت سالہاسال سے اپنے اندرخوابیدہ ’’بندہ مومن‘‘ کوجزوقتی طور پر بیدار کرکے کہیں گے ’’یہ اقبال کون ہوتا ہے ہمیں مذہب سکھانے والا؟ لو بتاؤ! بھلا اب مذہب کو سمجھنے کیلئے ہم شعر پڑھیں گے؟ توبہ توبہ۔۔۔ کیا زمانہ آ گیا ہے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے سے ہم اپنے بچوں کو پیاسے کوے، لالچی کتے، بے وقوف بارہ سنگے اور چالاک لومڑی کی کہانیاں،اور درخواستیں، دعوتی رقعے اور خطوط لکھنا سکھا رہے ہیں۔ غلام پیدا کرنے ہوں تو ایسا ہی نصابِ تعلیم ہونا چاہئے۔ گویا، آگہی کے سمندر میں بچوں کو داخل ہی نہ ہونے دیا جائے۔ انہیں تعلیم کے نام پر کارِبیکار میں الجھائے رکھا جائے۔آخر ہم علم کے سفر پر گامزن اپنے بچوں کو نئے راستے اور نئی منزلیں کیوں نہیں دکھاتے؟ کیا کلام اقبال پڑھانے سے بچوں کے ذہنوں پر برا اثر پڑے گا؟ کیا مثنوی مولانا روم کی نسبت لالچی کتا اور پیاسا کوازیادہ ’’معتبر‘‘ تحریریں ہیں؟ کیا ہماری حکمت عملی ہی یہ ہے کہ بچوں کو سچ سے دور رکھا جائے؟کیا ہم خود ہی انگریز کی سوچ کے وارث ہو گئے ہیں؟ کیا ہم واقعی اقبال کو اپنا قومی شاعر سمجھتے ہیں؟کیا ہم قوم کے ماضی کے معمار اس قومی شاعر پر قوم کے مستقبل کی تعمیر کیلئے بھروسہ نہیں کر سکتے؟کیا ہم خود کو اقبال کی نسبت دانائی اور آگاہی کا زیادہ گہرا سمندر سمجھتے ہیں؟
اردو گرامر، انگریزی گرامر۔۔۔۔ہم نے گزشتہ70برس میں ان گرامروں کے زور پر کتنے ماہرینِ لسانیات پیدا کر لئے؟کیا ایک ناکام تجربے کو 70برس تک دوہراتے رہنا دانائی ہے؟کیا کوئی کارخانہ 70برس تک غیرمنفعت بخش اشیاء بناکرزندہ رہ سکتا ہے؟کیا خدا نے دنیا میں کوئی بے کار چیز پیدا کی ہے؟اور ہاں! یہ گرامر کا پیاسے کوّے سے کیا تعلق ہوتا ہے؟
ہوم اکنامکس۔۔۔۔ اس ہوم اکنامکس نے ہماری نئی نسل میں کتنی سُگھڑ بیبیاں پیدا کی ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ آج کل جس قسم کا ’’سگھڑاپا‘‘ منظر عام پر آ رہا ہے، وہ اس ہوم اکنامکس ہی کی دین لگتا ہے!
زراعت، بجلی، چوب کاری، دھات کاری۔۔۔ خیر سے کتنے ہنرمند پیدا ہو گئے؟ غضب خدا کا،ملک بے ہنر مزدوروں سے بھرا پڑا ہے اور سرکاری سکولوں میں چھٹی سے آٹھویں جماعت تک ان شعبوں کے ہنرمند پیدا کرنے کیلئے باقاعدہ تجربہ گاہیں اور اساتذہ موجود ہیں،مگر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارا یہ انتظام ہمیں کچھپے بیک بھی کر رہا ہے یا نہیں؟
کیا میر، غالب، اقبال، فیض،منٹو اور قرۃ العین حیدر وغیرہ سب بجلی، چوب کاری، دھات کاری، زراعت، معاشرتی علوم اور ہوم اکنامکس وغیرہ سے بھی زیادہ برے اور بے کار ہیں؟ پیاسے کوے اور لالچی کتے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
خوش قسمت ہوتی ہیں وہ اقوام جن کے پاس تدریس کیلئے ایسے بے نظیر ادیب اور ادب پارے ہوتے ہیں اور بدقسمت ہوتی ہیں وہ اقوام کہ جن کے علمی خزانوں کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنے ملک میں اقبالیات کو اس کا حقیقی مقام نہ دیا، میر اور آتش کو بے وقعت جانا، فیض اور فراز کو فراموش کئے رکھا، منٹو، قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین اور دیگر ادباء و شعراء سے منہ موڑے رکھا تو بہت ممکن ہے کہ کل کا مؤرخ لکھے کہ ’’اچھا ہی ہوا بغداد کے کتب خانے ہلاکو نے تباہ کر دیئے، رومی کی کتابیں شمس تبریز نے جلا دیں اور وسط ایشیاء کے علمی خزانوں پرمغرب قابض ہو گیاورنہ یہ سب بھی اردو، سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، براہوی، سرائیکی، فارسی اور کشمیری ادب پاروں کی صورت دیمک کی نظر ہو جاتا۔ بے قدری کی زندگی سے تو موت ہی بھلی اور یہ کہ یہ مسلمان تو ہیں ہی ناقدرشناسانِ علم!‘‘
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اور غالب کو سنا ہے تو منیر کی بھی سن لیں
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے