تحریر : محمد جواد خان
ایک تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ لوگ یہ کیوں بولتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔۔۔ حالانکہ زمانہ کوئی بدلنے والی چیز ہے ۔۔۔؟ ایک منٹ کے لیے اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہم کو معلوم ہو کہ ہم بدل گئے ہیں۔۔۔یا۔۔۔زمانہ بدل گیاہے۔۔۔؟؟؟۔ ۔۔ ہم نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم اپنے بھائی کے پاس بیٹھ کر اس کے حالات دریافت کر یں۔۔۔کسی بیمار کی تیماداری کر یں۔۔۔مگر ایک وقت وہ تھا کہ جب ہمارے معاشرے میں لوگ اپنوں کیلئے ہر چیز دائو پر لگا دیتے تھے ۔ ایثار و ہمدردی، خلوص و محبت اور خدمتِ خلق کا جذبہ عام تھا۔ کوئی بیمار ہوتا یا کسی پر کوئی پریشانی آ جاتی تو پورا خاندان ، دوست احباب ، عزیز و اقارب بے چین ہو جاتے، اس کی عیادت کرتے، اسے تسلی دیتے۔
اس کے ساتھ ایثار و ہمدردی کا مظاہر ہ کرتے ، اب وقت نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ پیسے مل جائیں ، زندگی کی آسائشیں حاصل ہو جائیں ، ہر طرف سے ہم کو سکون میسر ہو سکے۔ چاہے کوئی مرے یا جیے ( گو کہ یہ صورتحال ہر طرف اس وقت نہیں ) مردہ دل و ضمیر کے حامی معاشرہ پھر یہ کیوں سوچتا ہے کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے، کانٹے بو کر پھول نہیں مل سکتے ،پہلے کہتے تھے کہ تم جو کر رہے ہوبعد مرنے کے اس سب کا حساب ہوگا ، نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے کی ہر دم کوشش کی جاتی تھی ، ہر چند ہر کوئی برائی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا تھا، بڑوں کی بات کو چھوٹے اپنا لوگوں ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے تھے اس کی پریشانی کو ختم کرنے کے لیے۔
مگر اب تو کچھ ایسا ہے کہ لوگوں کے اندر احساس اور شعور ختم ہی ہو گیا ہے۔آ ج کل الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، جیسے جیسے ٹائم گزر رہا ہے اخلاقی اقدار میں کمی آتی جا رہی ہے۔ اسلامی معاشرے میں زندگی کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان میں تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی بقا ایک اہم اور بڑا مسلئہ ہے۔ آج ہر طرف روپے پیسے کی ریل لگی ہوئی ہے،گاڑیاں ، موبائل فونز، زندگی کی ہر آسائش بظاہر انسان کو میسر ہے۔ کمیونکشن کا نظام اتنا تیز ہے کہ ہر کوئی بہ آسانی دوسرے کی پہنچ میں ہے، اس کے باوجود فاصلے ہیںکہ بڑھتے جارہے ہیں۔ رشتہ داریاں ، تعلق، دوستیاں ، جو پہلے پشت در پشت چلتی تھیں اب وہ صرف مطلب کانام ہو کر رہ گئی ہیں۔
اب ہر چیز کا پیمانہ تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے رشتہ داریوں کا پیمانہ خونی رشتے ہی ہوا کرتے تھے، پہلے تعلق و دوستی خلوص کی بنیاد پر استوارہوا کرتی تھی اب یہ محض مطلب اور خود غرضی کا نام بن گئی ہے ۔ اس طرح گویا ہم اس حقیقت سے منہ موڑ رہے ہیں کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت ہے، چاہے دکھ ہو یا سکھ، جو چیزیں ہمیں آسودگی بخشتی ہے، و ہ مذہب ہی تو ہے اور دین میں رشتے اور بھائی چارے کی بہت اہمیت ہے۔ چناچہ اسلام میں قطع رحمی کو بہت بڑا گنا ہ کہا گیا ہے۔ ہمیں تعلیم دی گئی کہ ” جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو” ہم نے پہل کرنے کا انا اور عزت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
ہمیں تو یہ چاہیے کہ ایثار ، ہمدردی اور نفع رسانی کے جذبات اپنے اندر پیدا کریں ، اگر کوئی مہمان آئے تو خوش دلی سے اپنے دستر خوان پر جگہ دیں ۔ اپنے مہمان کی تواضع کریں۔ اس پر آشوب دور میں ہمیں سکون اور محبت کی ضرورت ہے۔ کسی کو ایک مسکراہٹ دے کر ایک پھول دے کر دیکھیں، آپ کے لیے قہقہوں اور گل دستوں کے انبار لگ جائیں گئے۔ آج ہی تہیہ کریں کہ آپ دوسروں کے لیے وقت نکالیں گئے۔
لوگوںکی خیر خواہی اور نفع رسانی کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیں گئے۔ اس لئے کہ زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ہے۔قوم جب زندہ ہو تو وہ اقدار کی پرستار ہوتی ہے۔ اور جب وہ مردہ ہو جائے تو اس کے قومی اکابر اس کی پرستاری کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہی ایک لفظ میں ، زندہ اور مردہ قوم کا خلاصہ ہے۔
تحریر : محمد جواد خان
mohammadjawadkhan77@gmail.com