تحریر: سید مبارک علی شمسی
میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا تھا جس کو حالات اور واقعات نے بوڑھا بنا ڈالا تھا۔ جس میں اس کے اپنے جانشینوں کا بڑا عمل دخل شامل تھا جنہوں نے اس کو اتنی تکلیفوں میںمبتلا کر دیا کہ اس کی کمر ٹوٹ گئی۔ میری جگہ کوئی اور شخص بھی ہوتا تو وہ اس کو دیکھ کر خوف محسوس کرتا۔ وہ بوڑھا شخص کچھ ایسے حلیے میں تھا کہ دیکھنے والے کو اس کی بیچارگی اس کے چہرے سے عیاں ہوتی وہ مصیبت کا مارا کسی امید کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہا تھا شاید پناہ کی تلاش میں تھا۔
اس کا لباس جگہ جگہ سے وقت کے خنجر نے تار تار کر دیا تھا اس وقت نے جوکبھی اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوتا تھا لیکن اس نے اپنے چاہنے والوں کو اپنی خوشی کی خاطر سونپ دیا تھا اس کا ایک بازو غائب اور تمام جسم زخموں سے چور تھا بعض جگہیں جسم کی ایسی تھیں جہاں سے خون رس رہا تھا اور اس پر ستم یہ تھا کہ اردگرد کے لوگ اس کو مزید زخم پہنچانے اور اس کے پرانے زخموں پر نمک کا مرہم رکھنے پر سرگرداں تھے۔
میرے دل میں کے لیے ھمدردی کے جذبات اُبھر آئے ، میرا جی چاہا کہ میں اس سے پوچھوں کہ وہ کون ہے اور اس حال تک کیسے پہنچا۔ میرے پوچھنے پر اس نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی میں پاک سرزمین پر قائم ہونے والا وطن ہوں۔ جسکو میرے دوستوں نے لاالہ کے نام پر حاصل کیا تھا۔میری بد قسمتی کا آغاز تب ہوا جب میرے اندر میری بھلائی کے خواہاں اس دنیا سے اٹھ گئے اور مجھے تنہا زندگی بسر کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ان کے فرزندوں کی آپس کی ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور میں ان کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا ایک بازو گنوا بیٹھا۔
ان لوگوں نے مل کر میرا بازو کاٹ ڈالا۔میرے جسم کا ایک حصہ مجھ سے جدا کر دیا گیا۔میں بہت تڑپا لیکن کسی نے میری تکلیف کا احساس نہیں کیا ۔پھر یہ لوگ میرے جسم کے باقی حصوں کو بھی مجھ سے جدا کرنے لگے اور میں اپنے بازو کا غم بھلا کر اپنے جسم کو بچانے کی کوشش کرنے لگا۔اپنے دیگر بہن بھائیوں کے دشمن بن گئے ااور اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہمیں نقصان پہنچانے لگے۔ یہ غدار ہاتھ اتنے مضبوط ہو گئے کہ مجھے بچانے کے لیے کوشش کرنے والے اپنے ہی بھائیوں کو یا تو ختم کر دیتے یا بے بس اپاہج بنا دیتے ۔ان سب نے مل کر جب میرا وجود جی بھر کر پامال کر دیا۔
تو میرے دل میں نشتر چبھونے کے لیے ایک خطرناک چال چلی وہ یہ کہ میری اولاد کو دولت اور دیگر چیزوں کا لالچ دیکر انھیں میری محبت سے غافل کر دیا تاکہ میری اولاد میرے دفاع کے قابل نہ رہے اور میرے معصوم بچے ان کے جال میں پھنستے چلے جائیںاور میں اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود انھیں دشمن کے چنگل سے آزادنہ کروا سکوں۔پھر انھوں نے میری اولاد کو آپس میں لڑوا دیااور وفا داری اور محبت کو ان کے وجود سے نکال دیااور ان کے دلوں میں نفرت اور دشمنی کے بیج بو ڈالے میرے وہ بچے جو مجھ سے محبت کرتے تھے ا نھیں اتنا بے بس کر ڈالا کہ وہ تماشائی بن کر اپنی اور میری بربادی کا تماشہ دیکھنے لگے اور آج میری یہ حالت ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں خود کو دشمنوں سے بچاؤں یا اپنے نا فرمان بچوں سے۔
خدا را کوئی تو میرے بچوں کو سمجھائے انھیں ان کی ذمہ داریوں کا احسا س دلائے انھیں ان کے اصل دشمن کی پہچان کروائے۔خدا کے لیے کوئی تو میرے زخموں پر مرہم رکھے۔یہ کہتے ہوئے اس شخص کی آوا ز بند ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے اچانک ہر طرف سے وہشیانہ قہقہے رنگ برنگی آوزوں کے ساتھ بلند ہوئے ہر ایک اس شخص کا مذاق اُڑا رہا تھا۔اپنے دیس کا مذاق اُڑا رہا تھا اپنے پاکستان کا مذاق اُڑا رہا تھا اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا کے رکھ دیا کوئی کہہ رہا تھا کہ دیکھو!
پاکستان بیچارہ کیسے رو رہا ہے
بہت شوقین تھا دل سمندر کے سفر کا
اسے تو گہرے پانی میں ڈبونا چاہیے
کہاں یہ کونے کونے میں لیئے پھرتی ہے گردش
مجھے تو بیٹھنے کو ایک کونہ چاہیے
کہاں ہیں وہ میرے احباب ! آخر وہ سب کہاں ہیں
انھیں مشکل میں میرے ساتھ ہونا چاہیے