تحریر:مہر بشارت صدیقی
پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور بقا کی ضمانت صرف اسلامی نظام حکومت دے سکتا ہے ۔ملک میں جاری بدامنی اور لاقانونیت کا حل آئین پر بلاتفریق عمل کرنے میں ہے ،اگر امراء اور غرباء کیلئے الگ الگ قانون رہا تو انتشار اور انارکی بڑھتی رہے گی جس سے بدامنی میں مزید اضافہ ہوگا۔مغربی تہذیب اپنی موت مرچکی ہے ،مغرب کا خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی کھوکھلی تہذیب کو دنیا پر مسلط کرنے کیلئے مغرب مسلمانوں پر حملہ آور ہے تاکہ مسلمانوں کو بھی اسی تباہی اور بربادی کا شکار کرے جس کا وہ خود شکار ہوا ہے۔
مغرب میں خاندان کی تباہی سے رشتوں کی پہچان ختم ہوچکی ہے ،بیٹی باپ اور بہن بھائی کی ہوس سے محفوظ نہیں ،انسانی رشتوں کی بدترین ذلت کے بعد اب مغرب میں منشیات کے استعمال اورخود کشیوں میں اضافہ ہوا ہے ،نشہ کے مستقل عادی افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس سے مغربی معاشرہ تباہی کے گڑھے پر جاپہنچا ہے ۔وطن عزیز پاکستان میںبھی بے روزگاری عروج پر ہے۔ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیکر روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ایم اے پاس نوجوان درجہ چہارم میں بھی بھرتی ہونا چاہتے ہیں تا کہ انکے گھر والے بھوک اور فاقوں کا شکار نہ ہوں۔ ملک میں دہشت گردی، بدامنی، بدعنوانی کا بازار گرم ہے ایسا نظام نافذ کیا گیا ہے جس میں طاقتور کے لئے تمام آسائشات اور سہولتیں ہیں جبکہ غریب عوام کے لئے کچھ نہیں رکھا۔
ظلم و جبر پر مبنی اس نظام کو ختم ہونا چاہیئے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی،لا قانونیت، بے روزگاری ،مہنگائی،لوڈشیڈنگ اور کرپشن و بد عنوانی ہیں چند فی صد اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ پورے ملک کے وسائل پر قبضہ کررکھا ہے اور عوامی وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹا جارہا ہے۔ عام آدمی بے روزگاری ،مہنگائی،لوڈشیڈنگ اور کرپشن و بد عنوانی کی وجہ سے اپنے حقوق سے مکمل طور پر محروم ہے اور اس کا بری طرح استحصال کیا جارہا ہے۔ ملک اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہے اور عوام جن حالات سے دوچار ہیں ان سے نکلنے کے لئے ایسی مخلص قیادت کی ضرورت ہے جو نہ صرف وژن رکھتی ہو بلکہ امانت و دیانت کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہو۔ ملک پر جو قیادت مسلط ہے اس کے بینک بیلنس ،کاروبار اور اہلِ خانہ بیرون ملک ہیں جبکہ وہ محض اقتدار کے جھولے جھولنے کے لئے پاکستان میں موجود ہیں ۔ حکمران خوف خدا سے عاری ہیں عوام بھوک و افلاس سے مررہے ہیں
لوڈ شیڈنگ نے معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لیکر معیشت کو سہارا دینے کے نام پر اللے تللے کئے جارہے ہیں اور قوم کو مزید مقروض کیا جارہا ہے۔ 2013 ء کے الیکشن میں عوامی مینڈیٹ چوری کرکے عوام کی توہین کی گئی۔ لوگ انصاف کے لئے عدالتوں میں دھکے کھارہے ہیں ۔ لوٹ کھسوٹ اور استحصال پر مبنی نظام کا خاتمہ کئے بغیر ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی حقیقی تبدیلی صرف اور صرف عوامی بیداری سے ہی ممکن ہے۔ حکومت نے پٹرلیوم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بڑے دعوے کئے لیکن اس سے غریب عوام کو کیا ریلیف ملا،پٹرول70روپے لیٹر مل رہا ہے تو آٹے کی قیمت میں تو ایک پیسہ بھی کمی نہیں ہوئی،گھی بھی سستا نہیں ہوا،چینی100روپے بوری مہنگی ہوئی ہے۔اس طرح اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہوئی۔حکمرانوں کو چاہئے کہ اگر وہ واقعی عوام کو ریلیف دینے میں مخلص ہیں تو میٹرو بنانے، سڑکوں پر سڑکیں بنانے کی بجائے آٹا سستا کریں تا کہ غریب کے گھر کا چولہا جل سکے۔
کم از کم دو وقت کی روٹی تو ان کے پیٹ میں جا سکے۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا جائے۔سردی میں گیس کی لوڈشیڈنگ تو ہوتی تھی لیکن اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی موسم سرمامیں گرمیوں سے زیادہ ہو رہی ہے۔مسلم لیگ ن کی حکومت لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے نعرہ پر اقتدار میں آئی تھی مگر دوسال میں حکومت نے اس میں اضافہ ہی کیا ہے کوئی کمی نہیں لاسکی۔گیس کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے ،ملک کے کئی حصوں میں گیس دستیاب نہیں ،آئی ایم ایف سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی شرائط پر قرضے لئے جارہے ہیں ،جب تک ملک میں نئے ڈیم تعمیر نہیں ہوتے بجلی کا بحران حل نہیں ہوسکتا۔ شہریوں کوبجلی گیس اور صاف پانی کی بنیادی ضروریات مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے
موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں جو بلند و بانگ دعوے کئے تھے ان پر عمل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ، شدید سردی کے باوجود ملک میں بدترین لوڈشیڈنگ جاری ہے ،جبکہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائے گی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی لائے گی مگر بجلی کے بلوں میں صارفین سے کئی قسم کے ٹیکس وصول کئے جارہے ہیں ،غریب شہریوں کیلئے بجلی کے بل ادا کرنے کے بعدزندگی کی ابتدائی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جاتاہے۔ حکومت بجلی کی چوری روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ،بجلی چوری میں زیادہ تر وہ لوگ ملوث بتائے جاتے ہیں جنہیں حکومتی سرپرستی حاصل ہے
لائن لاسز میں کمی کیلئے بجلی کی چوری روکنا ضروری ہے مگر حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔جب تک ملک میں پانی کے نئے ذخائر تعمیر نہیں کئے جاتے اور پرانے ڈیموں کی صفائی کرکے ان کی پانی ذخیر ہ کرنے کی گنجائش کو نہیں بڑھایا جاتا بجلی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاسکتا ،بجلی کی بلاتعطل فراہمی کیلئے حکومت نے اب تک کوئی خاص منصوبہ بندی کی اور نہ یہ حکومتی ترجیحات میں کہیں نظر آتا ہے ۔ موجودہ حکمران ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ عوامی قوت خرید بری طرح متا ثر ہونے سے خود کشیوں کے رجحان میںاضافہ قابل تشویش ہے۔ اگر حکمران اپنے اللوں تللوں پر خرچ کی جانے والی رقم اور کرپشن کو کنٹرول کرلیں تو ہمیں نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے
بلکہ مہنگائی کوبھی بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ملک میں در حقیقت بجٹ اور معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک بناتے ہیں ۔موجودہ حکمران غریب عوام کا خون نچوڑ کران کی سخت شرائط پر عمل پیرا ہیں ۔ سودی طرز معیشت نے سارا معاشی نظام تباہ و برباد کردیا ہے۔اسلامی طرز معاش کو اپناتے ہوئے ہمیں ڈوبتی معیشت کو سہارا دینا ہوگا ۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم،مزدوروں کی فلاح کے منصوبے، بچوں کی مفت تعلیم ،سستا اور فوری عدل و انصاف فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پاکستان نازک دور سے گزرہا ہے۔ملک پر کرپٹ اور نااہل لوگ قابض ہیں جنہوں نے اقتدار کو موروثی بنارکھا ہے۔حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ نے عوام کابھرکس نکال دیا ہے۔
مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کما نا مشکل ہوگیا ہے۔غیر ملکی قرضوں کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل میں بھی دن بدن اضافہ ہورہاہے۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کودوسال ہونے کوہیںمگر 18کروڑ عوام کوریلیف فراہم کرنے کے دعوے صرف اشتہارات تک دکھائی دیئے ہیں۔ جوحکومت عوام کو بجلی،گیس اور بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مہنگائی وبیروزگاری کا خاتمہ نہیں کرسکتی ایسی حکومت کے برسر اقتدار رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
تحریر:مہر بشارت صدیقی