تحریر : اشفاق حسین ٹہی
محترم قارئین !بلدیاتی الیکشن کی گہما گہمی ختم ہو ئی کچھ کے مقدر میں ہار تھی تو کچھ کا مقدر جیت کی خوشیاں سمیٹ سکا ۔الیکشن سے پہلے کمپین کے ایام میں نمائندوں نے ووٹ حاصل کر نے کیلئے اپنے ووٹرز سے مختلف وعدے کئے کسی نے کہا جیت کر پورے کریں گے تو کسی نے کہا کہ جیتیں نہ جیتیں ہم عوام کے مسائل کاسدباب کرائیں گے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ کون عوام کی توقعات پر پورا اترتا ہے اور کون عوام کے درمیان مذاق بنتا ہے ۔ کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ عوام صرف ملک صاحب ، خان صاحب کا رال الاپے گی یا جیتنے والے کو عزت سے بیٹھا ئے گی عوام نے جو ووٹ دیا ہے وہ اس کا حق ضرور ما نگیں گے۔
پچھلے چند سالوں پر نظر دوڑائی جائی تو اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران جماعت نے سرکاری ملازموں کے تبادلوں میں زیادہ اور عوامی مسائل میں بہت کم دلچسپی لی ہے۔تلہ گنگ میں اپنا سیاسی ہولڈاپ قائم کر نے کے لیئے ایک دوسرے کو نیچا دیکھاتے رہے۔جس کا نتیجہ ان کو بلدیاتی انتخابات میں شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔پہلے کی نسبت اس بار عوام نے دل کھول کر اپنی مرضی کی جس کی وجہ سے بڑے سیاسی پنڈتوںکے چہیتے قصہ ماضی بن گئے۔
جس کی وجہ سے تحصیل تلہ گنگ کی بارہ یونین کونسلوں میں 7 سیٹوں پر مسلم ق نے برتری حاصل کرکے مسلم لیگ ن کی قیادت کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اب حافظ عمار یاسر مونسپل کمیٹی کا چیر مین بنانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو کیا اہلیان تلہ گنگ کے دکھوں کا مداوا کر سکیں گے۔خستہ ہال سڑکیں ‘سیوریج کا ناقص نظام’سٹی ہسپتال اور ان جیسے بے شمار مسائل کا ان کو سامنا کرنا پڑے گا۔
مرکزاور صوبے میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور نئے آرڈینس کے تحت فنڈ ڈی سی او جاری کرے گا ۔ یونین کونسلوں کی بات کی جائے تو عرصہ دراز بلدیاتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں کے مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔جن یونین کونسل میںچیرمیں ن لیگ کے ہونگے شائد وہاں ایم این اے اور ایم پی اے ان کو فنڈ جاری کرا دیں تو اپنے مسائل حل کرانے میںکامیاب ہو جائیں ۔ اور ن لیگ کیا اتنی فراغ دلی کی جرت رکھے گی کہ جس تحصیل یاڈسٹرک میں ان کی حکومت نہ ہو ئی تو کیا وہاں مساوی فنڈ فراہم کرے گی۔
کیونکہ بعض گشت یہ سنائی دے رہی ہے کہ چکوال کی چیرمینی ن لیگ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی تو یہاں یہ اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر تلہ گنگ میں اپوزیشن اور ضلع میں ن لیگ کی حکومت بنتی ہے تو تلہ گنگ لاوارث ہو جائے گا۔ حا لات مختلف ہونے کی وجہ سے حافظ عمار یاسر کے لئے صوبا ئی حکومت سے گرانٹ جاری کرانا انتہائی مشکل ہے۔ اور حافظ عمار یاسر کو تلہ گنگ کے ذاتی وسائل پر ہی انحصار کر نا ہو گا جو کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس وقت کی معاذ خبریں یہ عندیہ دے رہی ہیںکہ مسلم لیگ ن کی قیادت غیر مشروط طور پر سردار غلام عباس کو اپنی جماعت میں خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں۔کیو نکہ سردار غلام عباس تحصیل تلہ گنگ اور دھن میں اپنا ایک وجود رکھتے ہیں۔اور ن لیگ ضلع چکوال کوآسانی سے اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گی ۔تحصیل تلہ گنگ کے اقتدار کی جنگ نے ن لیگ اور عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔اور تحصیل تلہ گنگ کی راہ میں روکاوٹ ڈال دی۔
تحریر : اشفاق حسین ٹہی