تحریر : ایم سرور صدیقی
کچھ باتوں پر تبصرہ نہ بھی کیا جائے تو اچھا ہے لیکن جلنا کڑھنا جب مقدربن جائے تو دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے بات کہے بغیر بات نہیں بنتی اعلیٰ عدلیہ کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم پر حکم دئیے جارہی ہے لیکن حکمرانوں کے سر سے آج تک جوں تک نہیں رینگی پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو حکمرانوں کو تاحیات نااہل قرارد یدیا جاتا عدالت عطمیٰ کا حکم نہ ماننے پر چھوٹی سی چھوٹی سزا توہین عدالت ہے لیکن کسی کو کچھ خوف نہیں اس ملک کی یہی بد نصیبی ہے کہ ہر بااثر شخص نے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے ۔۔
ڈیڑھ دوسال پہلے بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوئے تو امیدو ار اور ان کے حواری، ووٹر سپورٹر ایسے ٹھنڈے ہو گئے جیسے برائلر مرغی باعث دیگوںمیں پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہے ۔۔ ہمارے سیاستدان دن رات ، جمہوریت کا راگ الا پتے رہتے ہیں لیکن یہ کتنی خوف ناک بات ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے یعنی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دئیے جب بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان ہوا اس کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ پینٹر، فلیکس،کاغذ پریس والوں کے ساتھ ساتھ دیہاڑی دار”سرگرم ِ عمل ہوگئے تھے جو لوگ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے تھے وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے بلکہ سچ جانئے تو نہانے لگ گئے تھے امیدوار کے انتخابی دفاتر اور ڈیروں پر ڈھول بجتے تو اچھے خاصے لوگ لڈیاں ،دھمال ڈالتے اورنعرے لگاتے بریاتی کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے کئی جیبوںمیں نوٹ بھی لے جاتے پھر اچانک اس ماحول کو کسی کی نظر لگ گئی جہاں الیکشن کی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی وہاں الو بولنے لگے اور بلدیاتی انتخابات ملتوی ہونے سے کئی دہاڑی لگانے والوں کے منہ لٹک گئے
اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے چہرے بھی مر جھا گئے ہیں بیشتر امیدواروں نے اپنے انتخابی دفاتر بندکر دئیے ہیں در اصل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد شروع دن سے ہی مشکوک تھا اس میں حکومتی بے حسی کا زیادہ دخل کہا جا سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت، بیوروکریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرناہی نہیں چاہتے بلدیاتی انتخابات ہو نے سے عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جاتا جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں تھا۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب ترک وزیر اعظم جو خود ماضی میں ایک بلدیاتی ادارے کے میئر رہ چکے ہیں
لاہور میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تو پاکستانی حکام کے ساتھ استنبول کے میئر کا تعارف کروایا گیا جب انہوں نے لاہور کے میئر بارے استفسار کیا تو ہر بات پر ترکی کو فالو کرنے والے حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی پھر انہوں نے جلدی سے ایک سابق لارڈ میئر کو آگے کردیا ۔ یہ کتنی خوف ناک بات ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ جنرل مشرف کا تجویز کردہ ضلعی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں تھا جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے۔
جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوئے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت ہوئی اس وقت کئی مسلم اور مغربی ممالک میں ضلعی حکومتوں پر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے پاکستان میں بھی اس سسٹم کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اس نظام میں ترمیم کرکے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کر وانے کے اعلان سے عوام کوعملأٔ بیور کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اب چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے کیلئے افسروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ،حالانکہ ناظمین یا چیئر مین اور کونسلر عوام کے منتخب نمائیدے ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈ منسٹریٹر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ لوکل باڈیز کے حوالہ سے عوام میں پیپلز پارٹی با رے کوئی اچھا تاثرنہیں ہے
جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس کی صف میں شامل ہوگئی ہے جو پہلے ہاتھ دھو کر ضلعی بلدیاتی سسٹم کے پیچھے پڑی رہی پھر اس نے گذشتہ پانچ سال بھی بلدیاتی الیکشن کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کی جوسمجھ سے بالاتر ہے بلدیاتی سسٹم جو بھی ہو عوام کی خدمت کا مؤثر ذریعہ ہے اب مسلم لیگ ن کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی فالو کرکے ناظم کا نام چیئر مین اور نائب ناظم کو وائس چیئر مین کا نام دے کر نیا لو کل باڈیز ایکٹ تیار کیا تھا یعنی یہ ضلعی حکومتی نظام کا جدید ایڈیشن ہے ۔۔۔ حالانکہ خامیاں دور کرکے ضلعی حکومتوں کے نظام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروں کی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں
شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے لیکن ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم اور ہماری جمہوری حکومتوں کو تاریخ کے اس چکر سے بچائے ۔۔۔۔ ویسے ایک تجویز ہے کہ عدلیہ اور حکومت مل کر ایک ایسا آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دے جو حکومتی اداروں کی کشمکش اورانکے اثر سے واقعی آزاد ہو ۔۔۔جو وقت ِ مقررہ پر صوبائی ، قومی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقادکو یقینی بنانے کیلئے خود بخود کام کرتا رہے۔ اعلیٰ عدلیہ کئی سالوںسے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم پر حکم دئیے جارہی ہے لیکن حکمرانوں کے سرسے آج تک جوں تک نہیں رینگی پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو حکمرانوںکو تاحیات نااہل قراردیدیا جاتا ۔ آخرمیںآپ سے ایک سوال ہے جمہوریت کے دعویدار بھی عوام کو انکے بنیادی حق سے محروم رکھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کروائیں تو پھراس ادا کو آپ کیا نام دیں گے؟
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
تحریر : ایم سرور صدیقی