تحریر: انجینئر افتخار چودھری
چائینی کہاوت ہے کہ آپ آدھی جنگ اس وقت جیت لیتے ہیں جب آپ کو دشمن کی پہچان ہو جاتی ہے۔آپ کا دشمن وہ ہے جو پہلے دن سے دشمن ہے۔آپ سانپ کو سر سے ماریں دم سے نہیں۔ٹی ٹی پی کا سر کابل میں نہیں دہلی میں ہے۔ابرہہ کیا اس بار یمن کی بجائے لندن سے آئے گا۔
۔مار دو جلا دو ،آوازیں ہیں کہ تھم نہیں رہیں میں بھی اس شہر میں گزشتہ تین روز سے دیکھ رہا ہوں کس کس قسم کی بولیاں بانت بانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں ۔ملا عبدالعزیز نے کیا کہہ دیا کہ ہر کوئی ڈنڈے سوٹے لے کر ملک خدادا پاکستان کی اسلامی شناخت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔مادر پدر آزاد این جی اوز اخلاق باختہ عورتیں مخصوص پگڑی والے جن کو اس ملک کی اسلامی شناخت سے دشمنی تھی سب میدان میں ہیں۔مولانا عبدالعزیز گویا پورے اسلام کا ٹھیکہ اسی نے لے رکھا تھا اور یہی پاکستان کا مفتی اعظم ہے۔مجھے کسی بھی پاکستانی سے زیادہ دکھ ہے اپنے ان معصوم بچوں کا جو پشاور میں ذبح کر دیے گئے میری ساری پوسٹیں دیکھ لیں میرے سارے بیانات پڑھ لیں میرے ٹاک شو دیکھ لیں مجھے ان انسانیت دشمنوں سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی ان کے ماں باپ کو ہے۔
میں ان این جی اوز کی بات نہیں کرتا جن کی چاندی ہو گئی ہے وہ جو سمجھ گئی ہیں کہ اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں سے کیسے پیسے نکالنے ہیں وہ سب ہاتھوں میں ڈنڈے لئے سوئے لال مسجد چل نکلے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا عبدالعزیز نے پشاور واقعے کی سخت مذمت نہیں کی لیکن میرا سوال ہے کیا مولانا عبدالعزیز پاکستان کے کروڑوں عوام کا مفتی ہے؟کیا وہ میری آپ کی نمائیندگی کرتا ہے؟ہر گز نہیں ان کا اپنا ایک خیال ہے ان کی اپنی ایک سوچ ہے اس ملک میں اگر آقائے نامدار کو نہ ماننے والے بھی مزے سے رہتے ہیں اور خود ساختہ پیغمبروں کے داعی بھی مزے لوٹ رہے ہیں تو کیا ہم نے مولانا عبداعزیز سے ضرور مذمت کروانی ہے گویا ہم بھی عالمی سامراج کی طرح دنیا میں اعلان کر رہے ہیں کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا طالبان کے ساتھ۔ہمیں چکرا دیا گیا ہے ہمارے میڈیا نے ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ وہ دیکھو تمہارا دشمن لال مسجد میں چھپا ہوا ہے۔
دوستو!ابھی ابھی ایک ٹاک شو میں شریک تھا وہیں جناب الطاف کی تقریر سننے میں آئی جو فرما رہے تھے کہ آگ لگا دو لال مسجد کو۔میں سمجھتا ہوں ایم کیو ایم کے قاید پر ملک توڑنے کا جو جنوں ایک مدت سے ہے اس نے زور پکڑ لیا ہے سوال یہ نہیں کہ ایک لال مسجد جلائی جائے گی اگر لال مسجد کی جانب اس قسم کی اشتعال انگیزی کی گئی تو ایک خاص مکتب فکر اسے اپنے آپ پر حملہ تصور کرے گا اور پھر یہ آگ پاکستان کے گلی کوچے میں پھیل جائے گی اور یہی وہ خواہش ہے جو ٩٠ کے الطاف مدت طویل سے چاہتے ہیں گویا ہماری فوج جس کی پشت پر پوری قوم ہے اور جو دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے نکل پڑی ہے اسے قومی یک جہتی کی بجائے منتشر مدد پہنچائی جائے۔
پاکستان کو اس وقت عمران خان کی فکر اور سوچ کی اشد ضرورت ہے جس نے اپنا وہ دھرنہ جس کے لئے انہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ موت ہی مجھے یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتی ہے۔اس نے اپنے بے شمار کارکنوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دھرنہ اٹھا لیاحضرت الطاف کو دھرنہ اس وقت بہت برا لگتا تھا جب وہ تھا اور جب قومی یک جہتی کے لئے عمران خان وہاں سے اٹھے تو بھی برا۔دراصل الطاف حسین کو علم ہو گیا ہے کہ ٢٠١٣ کے انتحابات میں اس نے جس جبر غندہ گردی سے وہ انتحاب جیتا تھا اس کا پول گزشتہ ہفتے کی مکمل ہڑتال نے کھول دیا ہے۔جب شہر کراچی نے اعلان کر دیا کہ وہ محبت کے ساتھ ہے پیار کے ساتھ اور اے نفرت ہے نفرت کی آگ بڑھکانے والوں سے۔ سلام اہلیان کراچی آپ کا محبت اور پیار کی جانب لوٹنا ہمیں بہت اچھا لگا۔قارئین!پاکستان بدل رہا ہے ہمیں یہ علم ہے کہ اس ملک کا مقدر روشن ہے اسے روشنیوں کی طرف جانا ہے۔میرے بہت سے دوستوں کا مطالبہ تھا کہ صوبے کے وزیر اعلی اور وزیر داخلہ استعفی دیں۔سچ تو یہ ہے کہ اگر ان معصوم جانوں کامداوا اس سے ہوتا ہے تو نہ صرف انہیں بلکہ عمران خان کو بھی پارٹی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونا چاہئے ۔مگر یہ مسئلے کا حل نہیں ہے آرمی پبلک اسکول کنٹونمنٹ میں واقع ہے اور وہاں کی سیکورٹی ہماری پاک فوج کے پاس ہے مطلب یہ نہیں کہ ہم فوج کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم اس وقت عالمی بدمعاشوں کے نشانے پر ہیں جو ہماری نظریں ہمارے اصل دشمن سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔دکھ تو یہ ہے کہ آج کوئی بھی یہ سننے کے لئے تیار نہیں کہ کہ ٹی ٹی پی پر بھارت کاہاتھ ہے۔اور مزید کڑوا سچ ہے کہ ہم فکر اور سوچ کی لڑائی میں مات کھا گئے ہیں ١٦ دسمبر کے دن ایک اور ١٦ دسمبرتو ہوا ہی ہم سر پھٹول میں پڑ گئے۔الزام ایک دوسرے کے اوپر ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمیں مار کون گیا ہے۔
آج جنرل امجد بھی شریک گفتگو تھے انہیں اینکر پرسن نے کچھ تصویریں پرانی دکھائیں جو کسی اٹیک میں مارے گئے تھے جو ١٦ دسمبر سے پہلے ہوا تھا جنرل صاحب نے بتایا ایک دو تصویریں تو پرانی ہی ہیں۔یہ ایک سانحہ تھا کہ ہم الجھ کے رہ گئے ہیں۔اکیلی فوج کیا ہم سب بھی متحد ہو جائیں اپنی ترجیحات جب تک نہ بدلیں گے دشمن ہماری تکا بوٹی کر دے گا۔جب تک ہم نے یہ نہ طے کر لیا کہ ہمارا دشمن وہ ہی ہے جس نے ١٩٧١ میں کہا تھا کہ پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہم سنبھل نہیں سکتے۔آج کے سیمینار میں جو انسانی حقوق پارٹی نے منعقد کیا تھا میں نے محسوس کیا ہم نالائقوں کا ٹولہ ہیں جو لٹنے کے بعد ایک دوسرے کے سر پر جوتیاں برسا رپا ہے ۔کان دیکھنے کی بجائے کتے کے پیچھے دوڑ پڑے ہیں۔مانا کہ ٹی ٹی پی نے حملہ کیا ہے مگر اس ٹی ٹی پی کے پیچھے ٹی ٹی پا انڈیا ہے۔اور کیا ہم الطاف فرزانہ باری ہود بھائی ماروی سرمد امتیاز عالم ابصار عالم مادر پدر آزاد این جی اوز کے کہنے پر افغانستان کی طرف پلٹ پڑیں؟ایسا کرنا موت ہو گا۔پلٹیں اپنے اصلی دشمن کی طرف اسے گھیریں اس کے کالے کرتوت دکھا کر جب تک ان کے شہر اسی کی دہائی کی طرح لاشیں نہ اٹھائیں ہمارے قبرستان بڑھتے جائیں گے۔اگر ان مادر پدر آزاد نام نہاد روشن خیال این جی اوز کے کارپردازوں کے کہنے پر چل نکلے تو بھرکس ہی نکلے گا اور کچھ نہیں۔تین دن کا سوگ ہوتا ہے ہم نے سوگ منا لیا اور ثابت کر دیا کہ یہ دکھ قومی دکھ ہے۔ اس بات کو ذہن سے نکال دیںان مدارس کی ٹھیکے داری نہ مولوی سمیع الحق کے پاس ہے نہ مولانا فضل الرحمن اور نہ ملا عبدالعزیز کے پاس ان مدارس میں لاکھوں بچے حافظ قران بن رہے ہیں ان میں پانچ وقت اللہ کا پیغام پہنچایا جاتا ہے۔انہیں اپنے دل سے لگائیے اور یاد رکھیں مشرفی سوچ پر لعنت بھیجتے ہوئے اللہ کے ان گھروں کو تشدد کا پرچارک مت سمجھئے۔یہ وہ این جی اوز ہیں جو حکومت سے ایک پائی نہیں لیتے اور لاکھوں غرباء کے بچوںکو رہائش اور تعلیم دیتے ہیں۔دین کے اپنے معیار ہیں دین کے اپنے تقاضے ہیں کیا دین اس مولانا فضل الرحمن کا نام ہے جو کے پی کے میں تحریک انصاف کے ہاتھوں پٹ چکا ہے کیا یہ ہمارے دین کا سالار ہے کیاا مولانا عبدالعزیز قائد اسلام ہے؟یہ طاغوت کی سازش ہے اس نے گندے ٹی ٹی پی کے خارجیوں کو ہمارا نمائیندہ بنا کے پیش کیا وہ کبھی مولانا شاہ احمد نورانی سید مودودی مفتی نعیم تقی عثمانی منیب الرحمن کی بات نہیںکریں گے جو محبت پیار کی بات کرتے رہے اور کر رہے ہیں مسجدیں اللہ کا گھر ہیں انہیں اس سے پہلے بھی ابرہہ بر باد کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بھس بن گئے کیا الطاف حسین نیا ابرہہ ہے جو اپنے ہاتھیوں کے ساتھ اللہ کے گھر کو جلانے اسلام آباد آرہا ہے خود تو پاکستان آ نہیں رہا اور گھر جلائے گا اللہ کا لندن میں بیٹھ کر۔مولوی عبدالعزیز کا گھر جلانا ہے تو جائے روجھان جمالی اور جلاتا پھرے۔اگر اس گستاخ نے کسی بھی مسجد کو جلانے کی کوشش کی تو اللہ اپنے گھروں کو بچانا جانتا ہے۔قوم تین دن کے سوگ کے بعد گھروں سے نکلے اپنے ان دکھوں کو سینے سے لگا کر ان کا مداوا تلاش کرے۔کسی بھی جاہل سیاسی تماش بین کے کہنے پر اللہ کے گھروں سے اذانیں بلند کرنے والوں کو نفرت سے نہ دیکھے۔دسمبر کی ان قیامت خیز ساعتوں میں یخ بستہ موسم میں اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے والے ہمارے اپنے ہیں۔
جب ہمارا ہاتھ گرم بستر سے باہر نکلے تو ہماری آنکھ کھل جاتی ہے جو کڑک سردیوں میں ٹھنڈے پانیوں سے وضو کر کے نمازیں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں یہ ہمارے اپنے ہیں بیگانے نہیں۔ہاں جو ان کے بھیس میں ہمارے بچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں وہ پاکستان کے حقیقی دشمن ہیں۔میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے اسلام دین سے متنفر کروانے کے لئے بڑے عرصے سے سازشیں ہو رہی ہیں ٢٠٠٠ میں میں نے خود عربی اخبار حیات میں پڑھا کہ جرمنی میں طالبان کی فیٹریاں بنائی جا رہی ہیں جہاں پر لوگوں کو عربی سکھائی جاتی ہے اور جوان تیار کئے جا رہے ہیں آج ہمیں علم ہو رہا ہے کہ ٧١ میں مکتی باہنی کی شکل میں ہندوستانی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہو کر کاروائیاں کرتی تھی بعین یہی کچھ ہو رہا ہے اب پاکستان کے ساتھ ۔چائینی کہاوت ہے کہ آپ آدھی جنگ اس وقت جیت لیتے ہیں جب آپ کودشمن کی پہچان ہو جاتی ہے۔آپ کا دشمن وہ ہے جو پہلے دن سے دشمن ہے۔آپ سانپ کو سر سے ماریں دم سے نہیں۔ٹی ٹی پی کا سر کابل میں نہیں دہلی میں ہے۔ابرہہ کیا اس بار یمن کی بجائے لندن سے آئے گا۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری