تحریر : ملک محمد شہباز
آج کے دور میں ہم لوگوں کی غلطیوں پر ان کے لیے جج اور خود اپنے بہترین وکیل بنے ہوئے ہیں۔ دوسروں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی غلطی اور عیب ہماری نظروں کے سامنے ہوتا ہے جبکہ اپنے آپ کو ہم سب انتہائی شریف، ایماندار، متقی و پرہیز گار ظاہر کرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں۔اصولی طور پراپنی غلطیوں کو شمار کرنا چاہیے اور ان کی اصلاح و درستگی کے لیے تگ و دوکرنی چاہیے۔ اور دوسرے لوگوں کی غلطیوں اور خامیوں کو تلاش کرنے کی بجائے ان کی اچھائیاں اور نیکیاں تلاش کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو ان اچھائیوں سے متاثر کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے لیکن پھر بھی اگر کسی کی کوئی خامی یا کوتاہی نظر میں آبھی جائے تو اس کو اشتہار نہیں بنانا چاہیے اور اس کوتاہی کا چرچا سر عام لوگوں کے سامنے نہیں کرنا چاہیے
غلطی پر ہونے والے بھائی کی اس طرح اصلاح کرنی چاہیے جیسے آئینہ ہماری اصلاح کرتا ہے کہ چہرے پر کوئی دھول وغیرہ ہو یا کنگی ٹھیک سے نہ ہوئی ہو تو آئینہ خاموشی سے ہمیں سمجھا دیتا ہے کہ اس کو درست کر لو۔ بالکل اسی طرح ہمیں بھی اپنے بھائیوں کی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے۔اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جس بھائی کو سمجھایا جا رہا ہوں وہ ضد اور غصہ نہ کرے بلکہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کرے اور سمجھانے والے کا شکریہ ادا کرے۔اور سب سے بہترین کام تو یہ ہے کہ انسان اپنے گریبان میں جھانکے، اپنے ضمیر کو ملامت کرے اور اپنے اندر کے انسان کو جگائے، اپنا تزکیہ کرے اور اپنی غلطی و کوتاہی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔جب انسان اپنے آپ کو مکمل ٹھیک کر لے گا تو ہر مقام پر نصرتِ الٰہی کا نزول ہوگا ،کامیابیاں ہمارے قدم چومیں گی۔ ہماری ہر آرزو پوری ہوگی ، ہر دعا قبول ہوگی شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحہ نے اس صورت حال کو کیا خوب انداز میں بیان فرمایا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ شرف اور مقام و مرتبہ صرف اور صرف اپنے آپ کو ٹھیک کرنے اور خودی کو بلند کرنے کے بعد ہی نصیب ہوگاکہ ہماری ہر رضا اور ہر دعا قبول و منظور ہو گی۔مگر اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو پیش کرنا پڑے گا ، اپنی خواہشات کو ترک کرنا پڑے گااور اپنے آپ کو پورے کا پورا اسلام میں داخل کرنا پڑے گا۔خدائے عظیم و برتر آج بھی ان صفات کے ساتھ موجود ہے جو صفات غزوہ بدر کے موقعہ پر تھیں ، اللہ پاک کی آج بھی وہی شان و شوکت اور وہی قدرت ہے جو حضرت ابرہیم ؑ کے آگ میں ڈالے جانے کے وقت تھیں، اللہ پاک کی آج بھی طاقت اتنی ہی ہے جتنی حضرت اسمٰعیل ؑ کی قربانی کے وقت تھی، کمی صرف ہمارے ایمان کی ہے۔ ہمارا ایمان جس قدر پختہ ہو گا اور ہمارا بھروسہ اللہ پر جس قدر زیادہ مضبوط ہوگا ، اللہ کی مدد اتنی ہی ہمارے ساتھ رہے گی۔
اگر آج بھی ہم اپنے ایمان کو اتنا مضبوط کر لیں جتنا غزوہ بدر کے وقت مسلمانوں کا تھا تو آج بھی ہماری مدد کے لیے آسمان سے فرشتے اتر سکتے ہیں۔اگرآج کا مسلمان حضرت ابراہیم ؑ کی طرح ایمان کی مضبوطی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ عملی طور پر کرے تو آج بھی آگ کو گلزار بنانا اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے صرف ایک کن کی دوری پر ہے ۔مگر اس کے لیے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا ، خودی کو بلند کرنا پڑے گا اور اتنا بلند کرنا پڑے گا کہ حق ادا ہو جائے اور خدائے عظیم و برتر ہم پر راضی ہو جائے ۔اگر ہم اللہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری ہر مشکل آسان ہو جائے گی۔ یہی ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد ہے اور یہی ہماری اصل کامیابی و کامرانی ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنا تزکیہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین
تحریر : ملک محمد شہباز