کسی بھی ملک کی ترقی اور اسکی خوشحالی کا راز اس ملک کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم سے مربوط ہوتا ہے۔ قوم کی فکری اور نظریاتی تشکیل علمی وعملی مہارت اور ملک وملت کی تعمیر و ترقی میں نصاب تعلیم اساسی اہمیت کا حامل ہے جس سے اس معاشرے کی نسلیں تیار ہوتی ہیں اور اپنی قابلیت اور ہنر سے ملک کو فائدہ دیتی اور اس کا نام اور تشخص اجاگر کرتی ہیں۔
نصاب تعلیم کے ساتھ اچھا نظام تعلیم افراد تیار کرتا ہے اچھی تعلیم شعور دیتی ہے اور شعور برائی اور اچھائی میں تفریق سکھاتا ہے ۔ھمارے ملک میں ایک جیسا نظام تعلیم رائج نہیں بلکہ طبقاتی اور مہنگا نظام تعلیم رائج ہے مختلف انداز فکر کے حامل غیر سرکاری سکولوں کی تعداد سرکاری سکولوں سے کہیں زیادہ ہے جن کے پیش نظر کوئی مقاصد متعین نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے فائدے کے مطابق اپنے اہداف پر کام کرتے ہیں ھمارے ملک میں سرکاری سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے گلی محلوں میں غیر سرکاری سکولوں کی بہتات ہے اور تعلیم کا کوئی معیار نہیں بچوں کی عمر سے کہیں زیادہ کتابوں کا بوجھ ہے جس کو اٹھا کر چلنا محال ہے اسی لئے بچے گردن سینے اور کمر کے درد میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
کیا تعلیمی استعداد بڑھانے کے لئے بہت سے مضامین کی کتابوں اوربستے کا بھاری ہونا لازمی ہے جاپان میں تین سال تک بچوں کو ایک ہی مضمون پڑھایا جاتا ہے جو اخلاقیات اور آداب ہے جب کہ ھمارے یہاں ابتدا ہی سے اتنے مضامین کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جس سے ان کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہونے لگتا ہے ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سرکاری کے بجائے غیر سرکاری سکول میں اپنے بچوں کو پڑھائے اچھے غیرسرکاری سکولوں کی فیس اتنی ہے کہ عام آدمی وہاں اپنے بچوں کو پڑھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا پھر ان سکولوں نے اکیڈ می کلچر کو بھی بہت فروغ دیاہے والدین سکول کے علاوہ اکیڈمی کی فیس بھرنے پر بھی مجبور ہیں۔
ورنہ ان نام نہاد سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کی جاسکتی عام پرائیویٹ سکولوں اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طالبعلم بھی ٹیوشن پڑھنے ضرور جاتے ہیں ۔ اگر اکیڈمی میں انہیں پڑھنا ہے تو ان سکولوں میں داخلے کا کیا مقصد ہے ؟جہاں یہ سکول مالکان تعلیم کو کاروبار سمجھ کر دولت کما رہے ہیں وہاں اسکے پیچھے والدین کی اپنے بچوں کی جماعتیں پھلانگ کر اپنے پاں پر جلد کھڑا ہونے کی خواہش بھی کارفرماہے اسی کا فائدہ اٹھا کر یہ ادارے بھاری فیس کے عوض امتحانات میں سو فیصد رزلٹ کا لالچ دے کر معیار تعلیم کی بلندی کا ڈھونگ رچا کر طلبا کو اگلی کلاس میں ترقی دے دیتے ہیں۔
جب اگلا مرحلہ بڑی جماعتوں کا آتا ہے جہاں بورڈ کے امتحانات سے ان کے سکول کے تعلیمی معیاراور طالبعلموں کی قابلیت کا پردہ چاک ہوتا ہے جس کے لئے اور حربے استعمال کئے جاتے ہیں نقل کا بڑھتا رجحان ان ہی غیر سرکاری سکولوں کے مالکان کا مرہون منت ہے اپنے سکول کی ساکھ بچانے کے لئے امتحانی مراکز ہی خرید لئے جاتے ہیں اور یوں کھلے عام نقل کرنے کی اجازت ہوتی ہے استاد نے اگراپنے پیشے کا حق ادا کیا ہوتا طالبعلم نے کوشش اور محنت کی ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی۔
ان کی کیا تربیت کی جارہی ہے ؟انہیں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ پیسہ لگا کر ہر نا ممکن کام کو ممکن بنایا جاسکتا ہے وہ کیسے اخلاقیات اور آداب سیکھیں گے ۔ تعلیم کوشخصیت سازی کے لئے نہیں بلکہ کاروبار کے طور پر لیا جا رہا ہے طالبعلم میٹرک کے امتحانات میں نمبر جیسے تھوک کے حساب سے لے رہے ہیں جبکہ ان کی قابلیت جماعت ششم کے طالبعلم جتنی بھی نہیں ۔بچوں کے والدین ان کے اچھے مستقبل کے لئے اپنی جمع پونجی لگانے پر مجبور اور تعلیم کا کاروبار کرنے والے جھوٹا معیار قائم رکھنے کے لئے امتحانی مراکز خریدنے پر مجبور اور امتحانی مراکزکا عملہ بکنے کے بعدنقل کروانے پر مجبور ۔سارا نظام بگڑا ہوا ہے۔
میرٹ اتنا زیادہ ہے کہ آگے داخلے کے لئے پیسہ لگانا بھی مجبوری نقل بھی مجبوری بن گئی۔پیسے کے بل بوتے پر تعلیمی مدارج طے کرتے یہ طالبعلم ملازمتیں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اعلی عہدوں پر متمکن ہوکر اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں مال وزر لگا کر اس مقام تک پہنچنے والوں کی ترجیح ملک وقوم کی تعمیر ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اس کے اہل ہی نہیں ہوتے شائد مقدار تعلیم کو ہی معیار تعلیم سمجھ لیا گیا ہے ڈگریاں تو مل رہی ہیں قابلیت مفقود ہوتی جا رہی ہے کیونکہ بڑے عرصہ سے ایک سا تعلیمی نظام رائج ہے رٹا سسٹم کتابوں سے کاپیوں پر حرف بحرف نقالی اور استاد محترم کا کتاب سے دیکھ کر بورڈ پر وہی لکھنا امتحانات میں معاونت کرنے والے گیس پیپرز اور گائیڈ سے تیاری اور بعد میں نقل کرکے حرف بحرف لکھنا اس نظام میں بہتری لانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی معیار تعلیم ان ملکوں میں ہی ببڑھتاہے جوتعلیم کو ڈگری کا حصول نہیں بلکہ ترقی کا زینہ سمجھتے ہوئے اس میں بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں
تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے شمالی یورپ کا چھوٹا سا ملک فن لینڈپہلے نمبر پر ہے جہاں استاد بننا ڈاکٹر انجینئر بننے سے بھی مشکل ہے بڑی یونیورسٹیوں کے طالبعلم ایک خاص امتحان پاس کرنا پڑتا ہے اور وہ روزانہ دو گھنٹے اپنی استعداد بڑھانے پر لگاتے ہیں اور جہاں پندرہ سال سے پہلے کوئی امتحان نہیں لیا جاتا ایک اچھا استاد ملک کے لئے ہر عہدے اور ہر پیشے کے حامل افراد تیار کرتا ہے وہ نصابی تعلیم بھی دیتا ہے اور کردار سازی بھی کرتا ہے۔
ھمارے ملک میں سب سے آسان اسی پیشے کو لیا جاتا ہے جس کے لئے کوئی محنت درکار نہیں
شوق محنت اور پھر کامیابی یہ وہ مدارج ہیں جن کو طے کر کے حقیقی معنوں میں کسی ملک کے فعال شہری بن سکتے ہیں۔