تحریر : عثمان غنی
برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی تیاریاں ہو رہی تھیں قائداعظم محمد علی جناح بانٹو کے مسلمانوں سے ایک خطاب کر چکے تھے جس میں پاکستان کے حق میں بڑے پرجوش اور فلک شگاف نعرے لگائے اور پارٹی فنڈ میں سے 35ہزار روپے قائداعظم کو پیش کیے اس وقت بہت سے لوگوںنے صرف چار آنے دے کر مسلم لیگ کی بنیادی رکنیت حاصل کی قارئین ! آج کے دور میں یہ ”رکنیت” چار آنے سے چار کروڑ تک جا پہنچی ہے، 1948ء میں ایک اشتہار کے ذریعے معلوم ہوا کہ ”میٹھا در” میں پہلی مخیر تنظیم کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ، تنظیم کا نام ”بانٹوا میمن ڈسپنسری ” رکھا گیا ، جلد ہی اس تنظیم کا حصہ بن گیا ، لیکن جب ”امتیاز” دیکھا تو فورا علیحدگی اختیار کر لی ، حالانکہ جب ایک ہی صف میں محمود و ایاز کھڑے ہو جائیں تو بات پھر بند ہ نوازی سے کسی اور طرف جا نکلتی ہے وہ راستہ حقیقی راستہ ہے یعنی صراط المستقیم کا راستہ۔۔۔۔۔۔۔
میمن برادری کی شدید مخالفت کے باوجود 1951میں دو ہزار تین سو روپے کے عوض میٹھادر کے علاقے میں ایک ”میمن والیسر کور ”کے نام سے ڈسپنسری قائم کی لیکن دو سال کے بعد اس کا نام تبدیل کر کے ”مدینہ والیسر کور”رکھ دیا گیا ۔ 1951کے دوران ملک بھر میں جان لیوا ”ہانگ کانگ فلو” کے بعد ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے مگر ایدھی صاحب نے اپنی جان کی پراہ کیے بغیر کشتی کو دریا میں ڈال دیا ، اس کام کی برکت سے ایک میمن نے 20ہزار روپے بطور عطیہ عنایت کیے جس سے ایک پرانی وین خرید لی گئی جسے” غریب آدمی کی وین ”کا نام دیا گیا ۔ پھر ایک دن سردیوں کی یخ بستہ اور اندھیری رات کو خیالات نے ایسی انگڑائی لی کہ ڈسپنسری کا نام ”ایدھی ڈسپنسری” رکھ دیا گیا۔
سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن جن ہی احساس ہو گیا ”دل لگایا تھا دل لگا ہی نہیں ” البتہ 1964کے ”انتخابات،” میں محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا ، جنرل ضیاء الحق نے سرکاری خزانے میں سے پانچ لاکھ روپے کا چیک بھجوایا جسے شکریہ کے طورپر واپس بھیج دیا گیا ۔البتہ ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ کی رکنیت کا اعزاز پیش کیا تو اسے بھی مسترد کر دیا ۔ ایک مرتبہ ایک اسرائیلی چیک پوسٹ پر گرفتار کر لیا گیا مگر اُف تک نہ کی ، 1988میں ”اوجڑی کیمپ” کے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی دس لاکھ روپے کی رقم کو خود راولپنڈی پہنچایا ۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں شدید بارشوں نے اتنی تباہی مچائی کے منگلا ڈیم بھی ہولناک سیلابی ریلے کی زد میں آگیا ، دریا تو دریا، چھوٹے ندی نالے بھی آپے سے باہر ہو گئے ، بپھرتی موجوں نے متعدد دیہات و قصاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایدھی فائونڈیشن کے پچیس کلومیٹر پراجیکٹ کے مراکز، فوری امداد کو پہنچے ، مقامات پر ضروری ادویات ، پیرا میڈیکل سٹاف اور ماہر پیراکوں کی ٹیمیں مصروف عمل ہو گئیں ۔ ایدھی ائیر ایمبولینس بھی محو پرواز ہوئی لوگ ، درختوں ، چھتوں اور ٹیلوںپر پناہ کیے ، وقت کاچارہ سازیوں کی انتظار کرنے لگے ، انسانوں اور مویشیوں کے مردہ اجسام ، مسمار شدہ مکانوں کا ملبہ اور گھریلو سامان ڈوبنے لگا ، کچے گھروں کے نام و نشان تک بہہ گیا اور گھاس پھوس کی بنی جھونپڑیاں تنکوں میں بکھر کر سیلاب جھاگ کا حصہ بن گئی تھیں مگر سیلاب سے متعلق کسی بھی خبرنامے میں ایدھی فائونڈیشن کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ۔ شائد نیکی کے کاموں کی اصل روح تب ہی قائم رہ سکتی ہے جب اس کا تذکرہ معاشرے میں نہ کیا جائے ۔ جس کام کیلئے گواہ ، خداکی ذات کو بنایا جائے پھر معاشرے کی گواہی کی زرہ برابر بھی ضرورت نہیں رہتی پھر چولستان کے صحرائی علاقے میں چند انسانی جانیں موت کی وادی میں گھر گئی تھیں ۔ سب سے پہلے ایدھی رضا کار مدد کو پہنچے تو فوجی کمانڈر کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ” ہم نہیں جانتے تو ایدھی کو کیسے معلوم ہو گیا ؟کیا اس نے صحرا میں بھی ایدھی مرکز کھول رکھا ہے ؟’۔
غربت افلاس نے بنگلا دیش میں ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ کچھ بدقماش لوگوں نے جسم فروشی جیسا مکروہ دھندہ اپنا لیا ۔ انکے پیشہ ور ایجنٹ ، گائوں سے سادہ لوح لڑکیوں کو روزگار ، شادی اور بہتر زندگی کے سبز باغ رکھا کر سرحدوں تک لے آتے اور اندھیری راتوں میں راجستھان اور تھر کے صحرا عبور کراتے ، پاکستان کے شہروں کی روشنی میں پہنچ کر ان لڑکیوں کی آنکھیں کھلتیں تو انہیں عصمت فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ، جو بچ نکلتیں انکا ٹھکانہ یا تو جیل ہوتا، یا انہیں ایدھی مرکز میں پناہ ، کفالت اور حفاظت میسر آجاتی ، ایدھی فائونڈیشن کے زیر انتظام انہیں دستکاری اور دیگر ہنرسکھائے جاتے ، انکی مرضی کے مطابق انکی شادیوں کرائی جاتیں یا بنگلا دیش واپس بھجوا دیا جاتا ، 1991میں صد رغلام اسحق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو مبینہ نااہلی اور کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا۔
عبوری ، نگران حکومت نے دوبارہ عام انتخابات کرائے جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف ، وزیراعظم منتخب ہوئے ،یہی سال تھا ، جب ہزاروں لوگوں نے سرحد عبور کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم کیخلاف اقوام عالم کوا حساس دلایا جا سکے ۔ ایدھی فائونڈیشن نے غیر جانبدار انسانی کی تنظیم ہونے کے ناطے ، امن و سلامتی کا بین الاقوامی کردار ادا کرتے ہوئے مقامی افراد کے شانہ بشانہ اپنی خدمات پیش کیں ۔ ایدھی ہیلی کاپٹر نے ہزاروں زخمیوں کو لائن آف کنٹرول سے مظفرآباد ہسپتالوں تک پہنچایا ۔ ایک مرتبہ 14اگست کو یوم آزادی کی تقریب کیلئے مزار قائد پر، تقریر کے لئے بلایا تو کہا”اگر قائد آج زندہ ہوتے تو حیران ہو جاتے کہ انکی جدوجہد کا یہ کیا ثمر ہے۔
پاکستان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے کیونکہ اسکی قیادت عظیم مقاصد کو زندہ رکھنے میں ناکام رہی ہے اسکے باوجود ہم ہر سال پورے احترام کے ساتھ اس پر شکوہ یاد گار آتے ہیں لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم یہاں آکر اپنے محسن کو کیا صلہ دیتے ہیں ؟” لیکن ”حال دل انکو سنایا تو برا مان گئے ” والا حساب ہو گیا ۔ کینسر ہسپتال کیلئے عمران خان کو خود ایدھی صاحب نے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا عطیہ دیا کچھ ”لوگوں ”نے عمران خان کے ساتھ ایدھی صاحب کو بھی ”تبدیلی” کیلئے شامل کرنے کی ہرممکن کوشش کی مگر ناکام رہے پھر ایدھی صاحب کو قتل کی دھمکیاں بھی دیں مگر سادگی کا یہ فرشتہ سربکف رہا ، البتہ ہفت روزہ ”تکبیر” کے ایڈیٹر صلاح الدین کو انٹرویو دینے سے ایک دن پہلے شہید کر دیا گیا۔
ایدھی صاحب کو مجبوراًچند دن گزارنے کیلئے لندن جانا پڑا۔ کچھ نے کہا ”عمران خان نے چند ہفتوں میں بارہ کروڑ روپیہ حاصل کر لیا ۔ کیا وہ آپ سے زیادہ کامیاب نہیں ؟” ایدھی صاحب نے جواب دیا ”عمران کے پاس لوگوں کو دینے کیلئے کچھ اور ہے ، میرے پاس کچھ اور ۔۔۔۔۔میں لوگوں کو ہیرو نہیں بلکہ فقیر ہوں انکی زندگی کیلئے مزدوری کرتا ہوں ، انکے ساتھ ماں جیسی غیر مشروط محبت کرتا ہوں ” 1990تک ایک کروڑ انسانوں کی خدمت کا اعزاز ایدھی فائونڈیشن کو حاصل ہو چکا تھا ۔ آخری ایام میں بیرون ملک علاج کیلئے ہیلی کاپٹر کی آفر کی گئی مگر اس درویش نے انکار کردیا کہ میرا خمیر اسی پاک سرزمین کی مٹی سے اٹھا ہے ، تینوں مسلح افواج کے سربراہان کا جنازے میں پہنچ کر سیلوٹ پیش کرنا اور 19توپوں کی سلامی پیش کرنا۔
اس تاریخ میں دوسری دفعہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ ایک مرتبہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم کو پیش کی گئی تھی جنہوںنے ایک طرف مکار انگریز طبقے اور دوسری طرف عیار ہندئو بنیے کو شکست دے کر یہ وطن عظیم حاصل کیا تھا اور دوسری سلامی عبدالستار ایدھی کوجنہیں”فخر انسانیت ”کا خطاب دیا گیا ، دل کے معاملے میں ایدھی صاحب ”ناتواں” ہی پائے گئے تھے ایک دفعہ سفر کے دوران مخالف چہرے کی اس جھلک کو نہ سمجھ سکے کہ یہ سرخی مخالف چہرے میں دوڑتے ہوئے خون کی جھلک تھی یا پھر محبت کی ایک لہر ۔۔ محمد رفیع کا یہ گیت انہیں بہت پسند تھا ۔۔ اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے ، کوئی یہاں گرا،کوئی وہاں گرا۔ ختم شدہ۔