counter easy hit

میں لٹیروں کے دیس سے ہوں

Dinner in honor Students

Dinner in honor Students

تحریر: شاہ فیصل نعیم
یہ گلاسگو سکاٹ لینڈ کے ایک مسلم کمیونٹی ہال کا منظر ہے۔ پاکستان سے یورپ کے دورے پر جانے والے طلبا کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے وہ پاکستانی جو اس وقت یورپ میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں کو خاص دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے تجربات سے طلبا کو آگاہ کرسکیں۔ ہر ٹیبل پر طلبا کے ساتھ ایک یا دو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو مستقبل کے معماروں کو اپنے تجربات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ جس ٹیبل پر میں بیٹھا ہوں وہاں کچھ کاروباری لوگ براجمان ہیں وہ کافی دیر ہمیں یورپ میں کاروبار اور حالات کے بارے میں معلومات دیتے رہے۔ باتوں کے دوران جب بھی پاکستان کا نام آتا تو اُن کے دل سے ایک آہ نکلتی تھی۔ میں نے ملک سے اس قدر محبت کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

“سر! آپ پاکستان سے اس قدر محبت کرتے ہیں مگر معیشت آپ یورپ کی مضبوط کر رہے ہیں۔ کیا یہ قول و فعل میں تضاد نہیں؟آپ کو چاہیے کہ آپ پاکستان واپس آئیں وہاں پر کاروبار کریں وہاں لوگوں کو روزگار دیں اور ملک کا نام عالمی منڈی میں روشن کریں”۔ میری باتیں سننے کے بعد وہ یوں گویا ہوئے: “آپ کی سب باتیں بجا ہیں ہمیں پاکستان جانا چاہیے وہاں کاروبار کرنا چاہیے اپنے ملک کو فائدہ پہنچانا چاہیے۔ مگر ہمیں صرف ایک چیز دے دیں ہم پاکستان آنے کے لیے تیار ہیں”۔

میں نے پوچھا : “وہ کیا سر”؟ اُنہوں نے اپنی بات کو جاری رکھا: “نوجوان ہم کچھ زیادہ نہیں مانگتے ہمیں صرف تحفط فراہم کر دو۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ہمیں صرف اتنا یقین دلا دو کہ ہم ائیرپورٹ سے اپنے گھر صیح سلامت پہنچ جائیں گے کاروبار کو تحفظ دینے کی بات بہت دور کی ہے”۔ یہ ڈیمانڈ جولائی ٢٠١٠ء کی ایک شام کو یورپ میں بسنے والے ایک پاکستانی بزنس مین نے پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے نمائندوں کے طور پر ہم سے کی تھی ۔ اُس وقت میری سوچ اور خیالات مختلف تھے۔ میں نے سوچا یہ لوگ کبھی پاکستان جانا ہی نہیں چاہتے فقط اپنے بچائو کے لیے دلیلیں دے رہے ہیں۔ شاید وہ اپنے تجربات سے اخذ نتائج کی بنا پر بتا رہے تھے اور مجھے اُن کی باتوں کو سچ یا جھوٹ کہنے کے لیے وقت درکار تھا۔

میں ٢٨ فروری ٢٠١٦ء صبح ٣ بجے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو دوست و احباب خوش آمدید کہنے کے لیے وہاں پہلے سے ہی موجود تھے ۔ میں نے اپنا سامان ٹرالی پہ رکھا ہوا تھا میں دوست و احبات سے ملنے میں مصروف ہو گیا اور میرا سامان چھوٹا بھائی گاڑی تک لے گیا۔ جب میں فارغ ہو کر گاڑی کے پاس پہنچا تو وہاں خالی ٹرالی تھامے دو آدمی کھڑے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی شروع ہو گئے : “واپس آنا مبارک ہو “۔

میں فقط ایک لفظ پہ ہی اکتفا کیا : “شکریہ” “صاب ! اب ہمیں بھی کچھ دیں مٹھائی وغیرہ کے لیے”۔ “کیا مطلب ؟ آپ کو تنخواہ نہیں ملتی اس کام کے لیے؟ میں یورپ کے کئی ملکوں میں گیا ہوں مگر کسی ملازم کو مٹھائی کے نام پر یوں لوگوں کو لوٹتے نہیں دیکھا۔ جائیں اور کام کریں جس کے لیے سرکار آپ کو تنخواہ دیتی ہے”۔ وہ بولا: “صاب ! یورپ والے ہماری طرح غریب تھوڑی ہیں”۔

Beggar

Beggar

“دوست ! میں نے آج تک کسی منگتے کو ترقی کرتے نہیں دیکھا۔بہتر ہے کہ اب جائیں اور اپنا کام کریں”۔ اُس پر میری باتوں کا کوئی اثر نا ہوا اور جان چھڑانے کی خاطر میرے کزن نے اُسے کچھ پیسے دے دئیے ۔ مگر وہ کہنے لگا: “نہیں ہمیں یہ پیسے نہیں باہر کے پیسے چاہیے”۔ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے جاگ رہا تھا اُس کی بات سن کا دماغ فریش ہو گیا۔ “میرے پاس کچھ سکے بچ گئے تھے میں نے وہ اُس کی طرف بڑھائے مگر اُس نے لینے سے انکار کر دیا”۔ کہنے لگا: “صاب ! سکوں کا ہم نے کیا کرنا ہے کوئی باہر کا نوٹ دیں”۔ جب اُسے کوئی امید نظر نا آئی تو پاکستانی مٹھائی ہی لے کر نکل گیا۔

میں گاڑی میں بیٹھ گیا ابھی گاڑی کوئی دو منٹ ہی آگے بڑھی ہو گی کہ پارکنگ سٹینڈ والے نے روک لیا پھر وہی حال اُسے بھی مٹھائی چاہیے اور اس قدر شدت سے چاہیے کہ وہ کسی بھی گاڑی والے کو خالی جانے نہیں دے رہا۔ البتہ ٹول پلازے والے کو شاید شوگر تھی اس لیے اُس نے مٹھائی کی ڈیمانڈ نہیں کی جس پر مجھے حیرت بھی ہوئی۔ پھرکچھ وقت سکون رہا مگر راوی پل کراس کرتے ہی پولیس نے روک لیا۔ ایک پولیس والا کچھ دیر ہمیں احتیاطی تدابیر بتاتا رہا کہ راستے میں کوئی بھی پولیس کی گاڑی ملے جس پر آپ کو شک ہو تو اُن کے روکنے پر گاڑی نہیں روکنی۔

میں نے سوچا واہ یہ تو کمال ہو گیا جن سے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے وہی بے خطر لگ رہے ہیں میں نے انکل سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے تو وہ کہنے لگے : “بیٹا ! کچھ نہیںبدلایہ وہی پاکستان ہے جسے تم کچھ ماہ پہلے چھوڑ کر گئے تھے اور رہا ان پولیس والوں کا سوال تو انہوں نے اپنی مٹھائی آتے ہوئے ہم سے سب سے پہلے لے لی تھی”۔ یہ کوئی خیالی پلائو نہیں حقیقت ہے مجھے گلاسگو میں ملنے والے بزنس میں کی بات مذاق لگی تھی مگر آج کے تجربے نے میری کل کی سوچ کو غلط ثابت کر دیا۔ میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یہ مٹھائی کھانے والے پاکستانی سرکار کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں دنیا نے ہمیں ایسے ہی بدنام نہیں کیا ہوا۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم