تحریر : شہزاد حسین بھٹی
حقوق اللہ ،حقوق العباد اور حقوق النفس کی ادائیگی میں توازن کا نام اسلام ہے ۔تعلیمات وحی کے دو بڑے اجزا ء ہیں۔ایمان اور عمل صالح۔ایمان کا دائرہ عقائد کے گر د گھومتا ہے ۔توحید ،رسالت ،آخرت ،ملائکہ اور کُتب ان عقائد کے بنیادی عنوانات ہیں۔عمل صالح کے دو بڑے حصے ہیںاجتماعی عمل صالح اور انفرادی عمل صالح۔اجتماعی عمل صالح کو قرآن مجید نے دین کا نام دیا ہے جسکے چار بڑے ستون ہیں۔سیاست ،معیشت،معاشرت اور مذہب۔سیاست حکمران اور عوام کے باہمی تعلق کانام معیشت انسان اور اسکے پیٹ کو قائم رکھتی ہے ۔معاشرت دو انسانوں کے درمیان باہمی معاملات کی راہ سدھاتی ہے اور مذہب خالق اور اسکی مخلوق کے درمیان راز داری کو کہتے ہیں انفرادی عمل صالح کو “اسلام ” کہا جاتاہے جس کا لفظی مطلب اپنی مرضی سے دست بردار ہو کر صرف اللہ تعالیٰ اور اسکے آخری نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرنا ہے۔
دین اسلام میں مسلمانوں کے لیئے قدم قدم پر رہنمائی موجود ہے ۔صدق دل سے ایک چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی نیکی کے زمرے میں آتا ہے ۔یہی عمل صالح آخرت میںنجات کا باعث ہونگے ۔حوس اور لالچ پرستی کے اس دور قبیح میں عمل صالحہ کا جھنڈا سر بُلند کرنے والے افراد کی ابھی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔جو مال و زر کو جمع کرنے کی بجائے انسانیت کی فلاح و بہبود کو اپنا مقصد حیات بنائے ہوئے ہیںاوراپنے نفس پر قابو پاکر ہر لمحہ مخلوق خد ا کی خدمت کو اپنا شعار بنانے والوں کے لیئے ہی شاید بُلھے شاہ نے کہا تھا۔
رب رب کردے بُڈھے ہو گئے ،مُلاں پنڈت سارے
رب دا کھوج کُھرا نہ لبھا ،سجدے کر کر ہارے۔
رب تے تیرے اندر وسدا ،وچ قرآن اشارے
بُلھے شاہ رب اونہوںملدا،جیڑا اپنے نفس نو مارے
ملک امجد بھی چند ان خدا ترس اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ایسے مسیحا ہیںجنھوں نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں مختلف مصائب اور پریشانیو ں کا مقابلہ کیا اور ان سے گھبرا کر ہار نہیں مانی بلکہ انہیں مشیت ایزی قرار دیا حدیث مبارکہ میں ہے کہ؛ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کو بچایا ؛کے مصداق خدمت انسانیت کے جذبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے انہوں نے آواز ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن نامی این جی او کی بنیا د رکھی اور ضلع اٹک کے پسماندہ ترین گاؤں شمس آباد میں آواز ڈویلپمنٹ کے زیر اہتمام ایک سکول قائم کیا جہاں ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جو غربت اور افلاس کی وجہ سے سکول کا منہ نہ دیکھ سکتے تھے تاکہ وہ بھی پڑھ لکھ کر اس ملک کے باوقار شہری بن سکیں۔ میں ملک امجد کی این جی او کے زیر اہتمام انجام پانے والے قابل تحسین اقدامات کو بذریعہ انٹر نیٹ دیکھتا رہتا ہوں۔کبھی وہ گاؤں میں گندے پانی کے نکاس اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیئے سرکاری افسران کے دفاتر کے چکر لگا رہے ہوتے ہیںتو کبھی محمد سفیر خان جیسے نابینا بچے کے عزم و ہمت اور حوصلے کو لے کر بے حس حکومت اور عوام کے مردہ ضمیروں کو جگاتے ہیں۔میںنے انہیں قرآنی آیات کے شہید اوراق اور اخبارات کے مقدس صفحات کو تھیلوں میں چُن کر اکھٹے کرتے دیکھا ہے ۔جو وہ بعد میں خیر آباد کے قریب قرآن پاک بنانے والی فیکٹری میں ری سائیکلنگ کے لیئے خود دے کر آتے ہیں ۔گاؤں کی مساجد میں ویل چیئر مہیا کرنا تاکہ بیمار اور ضیعف نمازی آسانی سے نماز ادا کر سکیں۔غرض ایسے لا تعداد کام وہ کر رہے ہیںجو بلا شبہ کسی صدقہ جاریہ سے کم نہ ہیں۔میں ذاتی طور پر ملک امجد سے اتنی زیادہ شناسائی نہیں رکھتا مگر انکے کیئے گئے احسن کام جو خالصتاًاللہ پاک کی رضا کے لیئے کئے جار ہے ہیںانکی داد دئیے بغیر رہ بھی نہیں سکتا۔
امجد ملک کہتے ہیںکہ ا گر زندگی میں ایک انسان بھی میرے الفاظ اور میرے عمل سے مایوسی کے راستے سے لوٹ آئے اور امید کا دامن تھام لے تو ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد کسی حد تک مکمل ہو جا تا ہے ہم اگر اپنی روز مرہ زندگی میںصرف راستے کے پتھر ہی ہٹا دیں تو اس کا اجر عظیم ہے بلاشبہ ملک امجد جیسے لوگ ملک و ملت کے لیئے روشنی کا وہ استعار ہ ہیں جہاں سے ہمیں انسانیت کی فلاح و بہبود کا درس عملی طور پر دیا جا تا رہے گا۔اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ یہاں مشن کے تحت کام کرنے والے لوگوں کو اول تو پلیٹ فارم ہی مہیا نہیں کیا جاتا اور اگر وہ خوش قسمتی سے پلیٹ فارم پالیں تو انہیں چلنے نہیں دیا جاتا بلکہ انکے راستے میں روڑے اٹکا دیئے جاتے ہیں۔میرٹ صرف اور صر ف پیسہ اور سفارش ہے یہاں ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے ۔عبدالستار ایدھی جیسے انسانیت دوست شخص نے ہزاروں ایسی میتوں کو اُٹھایا جنھیں انکے اپنے بھی اُٹھالے جانے سے گریزاں تھے ۔ ملک میں جہاں کوئی ناگہانی آفت ،بیماری ،حادثہ ،دہشت گردی ہو سب سے پہلے زخمیوں اور شہیدوں کو اُٹھانے کے لیئے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔اللہ پاک انھیں صحت کاملہ اجلہ عطافرمائے۔ انکی انسانیت دوست خدمات کی دنیا معترف ہے لیکن جب نوبل انعام کی باری آتی ہے توانعام اغیار کے مخصوص ایجنڈے پر کام کرنے والے افراد کو ہی دیئے جاتے ہیں۔مُحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر جنھوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت کا تحفہ دیا انکے ساتھ ہم نے کیا کیا ؟غرض جو بھی محسن پاکستان و محسن انسانیت اس ملک کو سنوارنے اور اس کی تقدیربدلنے کے لیئے اپنے حصے کی جسارت کر تا ہے ۔ہماری کرپٹ اشرافیہ اس شخص کو ہیرو سے زیرو کر دیتی ہے۔ بلا شبہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لوگ اچھے کام کرنا چاہتے ہیںمگر سامنے کوئی پلیٹ فارم دیکھائی نہیں دیتا جس کا ماضی بے داغ ہو۔
یہ وہی قوم ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے اور وقت نے ثابت کیا قرض اتاروملک سنوارومہم کے دوران ہماری ماؤں نے اپنی پنشن اور سونے کی چوڑیاں تک اس ملک کے حکمرانوں کی جھولیوں میںڈالیں۔عمران خان جب شوکت خانم ہسپتال کے لیئے چندہ مہم پر نکلتے تھے تو سکول کے بچوں اور کالج کے طالبعلموں سمیت ہر کوئی اپنا حصہ اپنی استطاعت کے مطابق ڈال رہا تھا اس ملک کے خزانے کے صندوق میںکرپشن کے اتنے سوراخ ہیںکہ اٹھاسٹھ سالوں سے خزانہ بھرنے کے بجائے خالی ہی ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس ملک کے لوٹے گئے دو سو ارب ڈالر ز سوئس بینکوں سے نہ جانے کب واپس آئیں گے کہ اس ملک کی تقدیر بدلی جاسکے۔
گذشتہ دنوں اٹک کے ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کے فلیٹ سے سٹی پولیس نے تالہ توڑ کر نوشہرہ کی دوشیزہ برآمد کی جس کی تفصیل اخبارات کی زینت بن چکی ہے۔دوشیزہ کے مطابق وہ گذشتہ دو ماہ سے مذکورہ مجسٹریٹ کے فلیٹ میں موجود تھی جسے مجسٹریٹ صاحب باہر سے تالہ لگا کر رکھتے تھے۔ ہمارے قانونی نظام میں سقم کی وجہ سے نہ تو لڑکی کا میڈیکل کروایا گیا اور نہ مجسٹریٹ کے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں لائی گئی اگرچہ ڈسڑکٹ بار ایسوسی ایشن نے مذکورہ مجسٹریٹ کی بر طرفی کے لیئے جلوس نکالے اور ہڑتال کی مگربعد ازاں ڈسٹرکٹ بار بھی دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی ۔آمدہ اطلاعات کے مطابق مجسٹریٹ صاحب دسمبر سے سالانہ چھٹیوں پر ہیںاور انکے ڈیوٹی پر آنے کے بعدمزید کاروائی عمل میں لائی جائے گی جو ظاہر ہے کہ رفع دفع پر اختتام پذیر ہو گی ۔سوال یہ چھوڑ رہا ہوںکہ جس ملک میں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے افسران کا دامن داغ دار ہو گا وہ بھلا عوام کو انصاف فراہم کرپائیں گے ؟
آخر میں صدف ا صف کا شعر
جبیں پر ہے کعبہ، نظر میں مدینہ
بھلا کیسے ڈوبے گا، میرا سفینہ
تحریر : شہزاد حسین بھٹی