لاہور(ویب ڈیسک) سرفراز کے پاؤں کانپ رہے تھے ۔سر چکرا رہا تھا ۔آج اس کا اکلوتا بیٹا کمرے میں بیٹھا اپنے باپ کو کوس رہا تھا ۔سرفراز صاحب نے آج اپنے بیٹے علی کی سالگرہ پر اپنے ہاتھوں سے بادام کا حلوا بنایا ۔علی کو سرپرائز دینے کے لئے اس کے کمرے کے باہر پہنچے تو اپنا نام کان میں پڑھنے سے ٹھٹھک گئے ۔ان کا اکلوتا بیٹا ان کے بارے میںزہر افشانی کررہا تھا ۔علی اپنی بیوی ماہرہ کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا ۔:”یہ سرفراز صاحب کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں؟ان کو ہماری عزت اور مرتبے کا خیال ہی نہیں ہے ۔کبھی نوکروں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہیں ۔کبھی ان کے بچوں کو پڑھانے لگ جاتے ہیں۔ کبھی باورچی خانہ میں خانساماں کے ساتھ کھانا پکانے لگ جاتے ہیں۔ کبھی ڈرائیور کے بجائے خود گاڑی چلا کر پرانے کپڑوں میں پنکی اور ببلو کے سکول پہنچ جاتے ہیں ۔بچوں کو لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے کہ وہ ان کے دادا ہیں کتنی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔میں اس بک بک تنگ آگیا ہوں۔کیوں نہسرفراز صاحب کو اولڈ ایج ہوم میں بھجوا دوں؟ماہرہ ایک دم قہقہ مار کر ہنسی اور بولی:علی خیال تو اچھا ہے۔مگر پرسوں فادرز ڈے ہے۔میں نے اپنی این جی او کے سرکردہ لوگوں کو ہمارے ساتھ فادرز ڈے منانے کے لئے مدعو کیا ہے ۔پیر والے دن سسر جی کو چھوڑ آئینگے ۔سرفراز صاحب ڈولتے ہوئے اپنی خواب گاہ میں کیسے پہنچے انھیں کچھ یاد نہیں تھا ۔ان کی آنکھوں کے آگے تو علی کی پیدائش سے لے کراس کے باپ بننے تک کی فلم چل گئی۔یہ وہ علی تھا جس کی پیدائش کے لئے انھوں نے کتنی منتیں مانیں تھیں ۔جس کو انگلی پکڑ کر انھوں نے چلنا سکھایا تھا ۔جس کو بولنا سکھایا تھا ۔جس کے ساتھ وہ پہروں توتلی زبان میں باتیں کرتے ۔جس کے بارہا بار کیے گئے ایک ہی سوال کا جواب بار بار دیتے۔جس کو باہر اعلی تعلیم کے لئے بھیجنے کے لئے انھوں نے اپنا ذاتی گھر بیچ ڈالا تھا ۔جس کو کاروبار کروانے کے لئے انھوں نے اپنی آبائی زمین بیچ ڈالی تھی ۔جس کے ساتھ رہنے کے باوجود آج تک انھوں نے اپنی پینشن پر گزارا کیا تھا۔ سرفراز صاحب کے سر میں درد کی ایک زوردار لہر اٹھی ۔ان کے ذہن میںخیال آیا کہ انھوں نے کہیں حلال کمائی میں حرام کی آمیزش تو نہیں کردی ۔مگر جواب نفی میں آیا ۔درد تیز ہوتا جارہا تھا ۔ان کی کنپٹیاں پھٹ رہی تھیں ،ان کی بینائی جواب دیتی جارہی تھی ۔آج فادرز ڈے تھا۔علی اور اس کی بیوی بنے ٹھنے سر فراز صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے ۔ان کے ہاتھوں میں سرخ گلابوں کا بوکے اور چاکلیٹ کیک تھا جس پر ہیپی فادرز ڈے بڑی خوبصورتی سے لکھا ہوا تھا ۔مگر سرفراز صاحب کی بے نور آنکھیں تو دور افق کو تکتے ہوئے یہ پیغام دے رہی تھیں ۔اللہ نہ کرئے میرے بچے تجھے مجھ جیسا دن دیکھنا پڑے ۔اسی اثنا میں ٹی وی پر آیت قرآنی کا ترجمہ چلا۔آیات قرآنیہ:* اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہ کرنا۔ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔ اور عاجزی ومحبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پرودگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔۔۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل ۲۳ ، ۲۴) ۔علی بے اختیار گھٹنوں کے بل گر پڑا اس کو پتہ چل چکا تھا اس نے خسارے کا سودا کیا ہے۔