counter easy hit

کھوئی ہوئی میراثیں

فوزیہ علی آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کی ملازم ہے‘ یہ کینیا میں پیدا ہوئی اور آج کل صومالیہ میں کام کر رہی ہے‘ یہ ’’ ہاف کاسٹ‘‘ ہے یعنی اس کا والد سیاہ فام اور والدہ سفید تھی لہٰذا یہ سفیدی اور سیاہی کا خوبصورت امتزاج ہے‘ فوزیہ الحمدللہ مسلمان ہے‘ میری ان سے ملاقات اٹلی کے شہر ٹیورن میں ہوئی تھی۔ ہم نے 2009ء میں ٹیورن میں ایک چھوٹا سا کورس کیا تھا‘ہم آئی ایل او کے اس کورس میں 16 مسلمان تھے لیکن فوزیہ علی ہم میں واحد خاتون تھی جو اسلام کے اصولوں پر مکمل طور پرکاربند تھی‘ یہ پورا لباس پہن کر آتی تھی‘ سر پر حجاب لیتی تھی‘ بلاوجہ گفتگو نہیں کرتی تھی اور نماز کی پابندی کرتی تھی لیکن ان تمام تر اسلامی احتیاط کے باوجود میں نے اس میں ایک عجیب عادت دیکھی‘ وہ جب بھی شاپنگ یا سیر کے لیے باہر جانے لگتی تھی تو وہ ہمیشہ غیر مسلم حضرات کے گروپ کا انتخاب کرتی تھی‘ وہ ہفتہ بھر کے کورس کے دوران کبھی کسی مسلمان مرد کے ساتھ سینٹر سے باہر نہیں گئی۔

میں نے ایک دن اس کی وجہ پوچھی تو وہ ہنس کر ٹال گئی لیکن جب میں نے اصرار کیا تو اس نے ایک ایسا جواب دیا جس میں اسلامی دنیا کے تمام المیے دفن ہیں‘ فوزیہ علی کا جواب تھا ’’ میں غیر مسلموں میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہوں‘‘ میں نے وضاحت چاہی تو وہ بولی ’’ میں جانتی ہوں کوئی غیر مسلم میری اجازت کے بغیر میری طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کرے گا جب کہ میرا مسلمان بھائی میرے اکیلے پن کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا‘‘۔

فوزیہ علی کا جواب تلخ ضرور تھا لیکن حقیقت پر مبنی تھا‘ ہم مسلمان اخلاقی طور پراس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری اپنی بہو ‘ بیٹیاں اور بہنیں بھی ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہماری اسلامی دنیا میں کیا کیا گھناؤنے جرائم نہیں ہوتے‘ 20 جنوری 2017ء کو کراچی کے علاقے کورنگی کراسنگ میں کیا ہوا‘ چھ سالہ بچی کو پہلے درندگی کا نشانہ بنایاگیا اور پھر اسے مردہ سمجھ کچرا کنڈی میں پھینک دیاگیا ‘ یہ اس نوعیت کا پہلا جرم نہیں۔

پاکستان میں ہر دوسرے روز اس قسم کا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے اور ہمارے چہرے پر دنیا بھر کی کالک مل جاتا ہے‘ 23 جون 2017ء کوآٹھ سالہ بچی کوکراچی کے علاقے لانڈھی سے اغواء کرنے کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور زیادتی کے بعد ملزمان اسے بے ہوشی کی حالت میں سرجانی ٹاؤن پھینک کر فرار ہوگئے۔

اسی طرح 18 جولائی 2017ء کوملتان میں جرگے کے حکم پر12 سالہ لڑکی کے ریپ کے بدلے 17 سالہ لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنایاگیا جب کہ اس مقابلے میں پورے یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور غیر مسلم مشرق بعید میں دس دس سال تک اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا، وہاںخواتین رات رات بھر نیم برہنہ حالت میںگلیوں میں پھرتی رہتی ہیں۔

ویک اینڈ پرلڑکیاں شراب پی کر کلبوں میں ناچتی رہتی ہیں لیکن نشے کی انتہا تک پہنچ کر بھی کسی لڑکے کو کسی لڑکی کو چھونے کی جرأت نہیں ہوتی‘ عورتیں راتوں کو پورے یورپ میں سفر کرتی ہیں اور کسی کے ساتھ زیادتی یا چھیڑ چھاڑ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا لیکن کیا ہم اس کے مقابلے میں 58 اسلامی ملکوں میں ایسی توقع کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیںہماری خواتین دن کی روشنی میں بھی پردے میں باہر نکلتی ہیں اور غیر محفوظ ہوتی ہیں اور کیا یہ درست نہیں ہم انھیں اسلامی ملکوں میں اپنے گھر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔

میں اپنے دوستوں کو جب بھی اسلام کے سنہرے دنوں کی باتیں سناتا ہوں تو یہ لوگ ہنس کر جواب دیتے ہیں تم تہذیبی نرگسیت کا شکار ہو‘ تمہارا تعلق مسلمانوں کے اس گروہ کے ساتھ ہے جس کی سوچ نو سو عیسوی پر پہنچ کر رک گئی تھی اور جس نے کبھی زندگی‘ معاشرے اور تہذیب کو خلافت راشدہ یا اندلس کی مسلم ریاست سے باہر رکھ کر نہیں دیکھا‘ میں بعض اوقات اپنے دوستوں سے اتفاق بھی کرتا ہوں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہم لوگ تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں۔

ہم بل گیٹس کا تقابل 510 ہجری کے شام کے تاجروں کے ساتھ کرتے ہیں اورہم ابن رشد کو آئین سٹائن کا روحانی استاد ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ حال اور مستقبل کی تشکیل کے لیے ماضی ضروری ہوتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ شاندار ماضی ہمیں ہماری نالائقیوں اور بے وقوفیوں کا احساس دلاتا رہتا ہے۔

یہ ہمیں بتاتا رہتا ہے تم کیا تھے اور اب تم کیا بن گئے ہو اور اگر تم ماضی کی تابناک روایات کی طرف واپس نہ گئے تو تمہاراکیا حشر ہو گا؟ لہٰذا یہ نرگسیت نہیں حقیقت ہے کہ اسلامی دنیا پرکبھی ایسا وقت بھی آیا تھا جب خواتین تو بڑی بات بھیڑ بکریاں تک اسلامی سلطنت میں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھیں‘ تجارتی قافلے جوں ہی یورپ سے اسلامی سلطنت میں داخل ہوتے تھے تویہ اپنے مال‘ جان اور آبرو کے خوف سے آزاد ہو جاتے تھے۔

مسلمانوں کی کریڈیبلٹی کا یہ عالم تھا کہ ہسپانیہ کا عیسائی بادشاہ اپنے وزیر کی نوجوان بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو وہ مدد کے لیے کسی عیسائی بادشاہ کے پاس نہیں جاتا‘ وہ موسیٰ بن نصیر کو درخواست کرتا ہے اور موسیٰ بن نصیر اپنے غلام طارق بن زیاد کو اسپین روانہ کر دیتا ہے اور وہ چند ہزار لوگوں کے ساتھ اسپین پہنچ جاتا ہے‘ طارق بن زیاد کا یہ جذبہ آج بھی برننگ ڈیزائر (آتشی خواہش) کے نام سے انگریزی کا محاورہ ہے چنانچہ یہ محض تہذیبی نرگسیت نہیں ‘ یہ اسلامی دنیا کی فراموش کردہ حقیقت ہے‘ ہم اکثر کہتے ہیں علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے۔

میں ہمیشہ اس فقرے کو ادھورا سمجھتا ہوں کیونکہ میرا خیال ہے صرف علم ہماری کھوئی ہوئی میراث نہیں بلکہ کریڈیبلٹی‘ایمانداری‘ صاف گوئی‘صفائی‘ انصاف‘ ٹیکنالوجی‘ کاروبار‘ امن‘ محبت اور ویلفیئر بھی مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہیں‘ حاملہ خواتین کے لیے وظیفہ ہو‘ دودھ پیتے بچوں کے لیے وظیفہ ہو یالازمی اور مفت تعلیم ہو یا شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں اسٹریٹ لائیٹس‘ واٹر سپلائی‘ سڑکوں کی تعمیر‘ بازار‘ منڈیاں اور شاپنگ سینٹرزہوں یا پھر دنیا کے باقاعدہ تجارتی ضابطے‘ یونیورسٹی‘ رصد گاہیں‘ آزاد اور خود مختار عدلیہ‘ خواتین کے حقوق‘ غیر مسلموں کو عبادت اور اپنی تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہو یا پھر دنیا کی پہلی منجنیق‘ پہلی نیوی‘ پہلی ریگولر آرمی‘ پولیس کا پہلا دستہ‘ پہلا ڈاک خانہ‘ خواتین کے پہلے تعلیمی ادارے‘ جانوروں کے لیے پہلا شفاخانہ‘ گلیوں اور محلوں کی صفائی کے لیے سینی ٹیشن کا پہلا نظام‘ دنیا کی پہلی پبلک لائبریری‘ سائنس دانوں اور علماء کے لیے وظائف کی پہلی اسکیم‘ پہلی پبلک ٹرانسپورٹ‘ خواتین کے لیے پہلا بازار‘ معذوروں کی خدمت کا پہلا ڈیپارٹمنٹ‘ دنیا کا پہلا پاگل خانہ‘ یتیموں‘ بیواؤں اور مسکینوں کی مدد کا پہلا ادارہ ہو یا پھر سرکاری خرچ پر لاوارثوں کی تدفین کی پہلی اسکیم ہو یہ کس نے شروع کیا ؟

آپ کو حیرت ہو گی یہ ساری اسکیمیں‘ یہ سارے ادارے‘ یہ سارے ڈیپارٹمنٹس اور یہ ساری معاشرتی روایات مومنوں کی کھوئی ہوئی میراث ہیں۔ دنیا کا پہلا اسپتال اور اس اسپتال میں مفت علاج کی روایت بھی ہم مسلمانوں نے شروع کی تھی اور اونٹوں‘ گدھوں اور خچروں کے حقوق بھی ہم نے ہی طے کیے تھے اور دنیا کی پہلی واکنگ اسٹریٹ‘ دنیا کا پہلا پبلک پارک اور ملازمین کے لیے دنیا کا پہلا کوڈ آف کنڈکٹ بھی ہم نے تشکیل دیا تھا لیکن پھر ہماری یہ میراث وقت کی گرد میں کھو گئی اور ہم وہاں پہنچ گئے جہاں کبھی ہمارے دشمن ہوتے تھے اور ہمارے دشمن وہاں آ گئے جہاں کبھی ہم ہوتے تھے چنانچہ آج ہم نے تعلیم حاصل کرنی ہو‘ علاج کرانا ہو‘ شاپنگ کرنا ہو حتیٰ کہ ہم نے امن کے ساتھ زندگی گزارنی ہو تو ہم مکہ ‘ مدینہ اور قم کے بجائے کیلی فورنیا‘ واشنگٹن‘ نیویارک‘ لندن‘ پیرس‘ فرینکفرٹ اور ٹوکیو جاتے ہیں‘ ہم اور ہماری بچیاں مسجدوں میں محفوظ نہیں ہیں لیکن یہ لندن‘ پیرس اور واشنگٹن میں آزادانہ گھوم سکتی ہیں۔

روم کی سڑکوں‘ سینٹرل لندن اور امریکا کی موٹرویز پر کوئی غیر مسلم صدر‘ وزیراعظم یا آرمی چیف زیادہ اسپیڈ میں گاڑی چلانے کا رسک نہیں لے سکتا لیکن اسلامی دنیا میں بڑے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ملازمین بھی بڑے بڑے قانون توڑ دیتے ہیں اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ یورپ کے بادشاہ‘ صدر اور وزیراعظم اپنے لان کی گھاس خود کاٹتے ہیں لیکن اسلامی دنیا کے حکمرانوں نے جرابیں پہنانے کے لیے بھی ملازم رکھے ہوئے ہیں‘ ہمارے خانہ کعبہ میں طواف کے دوران لوگوں کی جیبیں کٹ جاتی ہیں‘ لوگ احرام باندھ کر دوسرے مسلمان بھائیوں کے بیگ چوری کر لیتے ہیں اورحاجی احراموں میں ہیروئن چھپا کر سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں‘ پوری اسلامی دنیا میں خواتین اور بچوں پر تشدد ہوتا ہے‘ ہماری مسجدوں کے استنجا خانوں کے قریب سے گزرنا محال ہوتا ہے‘ پوری اسلامی دنیا میں خالص دوا نہیں ملتی۔

ہم لوگ آب زم زم میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے‘ ہم جنازوں کے دوران دوسروں کی جیبیں کاٹ لیتے ہیںاور ہماری تعلیمی حالت یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں بین الاقوامی معیار کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں‘ ہم غلاف کعبہ کے لیے دھاگہ اور رنگ بھی یہودی کمپنیوں سے خریدتے ہیں‘ ہمارے لیے تسبیحاں اور جائے نماز چین بناتا ہے اور ہم نمازوں کے اوقات تک طے کرنے کے لیے یہودیوں کے تشکیل کردہ نظاموں کے محتاج ہیں۔یہ کیا ہے؟ یہ ہماری کھوئی ہوئی میراث ہیں۔ اسلام نے ہمیں برداشت‘ رواداری‘ کرٹسی‘ تحمل اور شائستگی بھی دی تھی لیکن ہم نے یہ میراث بھی کھو دی چنانچہ آج پاکستان جیسے اسلامی ملک میں غیرمسلم بھی محفوظ نہیں ہیں اور شیعہ کے ہاتھوں سنی اور سنیوں کے ہاتھوں شیعہ بھی مر رہے ہیں‘ آج مسلمان مسلمان پر خودکش حملے کر ر ہے ہیں‘ مسجدوں اور قبرستانوں میں بم دھماکے ہو رہے ہیں۔

آج دنیا کا ہر اسلامی ملک غیر محفوظ اور بے امن ہے‘ آج دنیا کا کوئی مہذب شخص کسی مسلمان ملک میں پاؤں رکھنے کے لیے تیار نہیں ‘ ہم علم سے لے کر انصاف تک دنیا کی بدترین قوم ہیں‘ یہ ہماری کھوئی ہوئی میراثیں ہیں‘ یہ جب تک ہمیں واپس نہیں ملیں گی ہم اس وقت تک اقوام عالم کی دہلیز پر گداگری کرتے رہیں گے‘ہم اس وقت تک انسانی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website