تحریر : عفت
وہ گرو کے گھٹنے پہ سر رکھے سسک رہا تھا ۔ میں ہار گیا گرو میں ہار گیا یہ دنیا بہت ظالم ہے ۔گرو نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسے اٹھا کر گلے لگا لیا ۔دل کا بوجھ آنسوئوں کے رستے بہا تو دل ہلکا ہوا گرو نے اسے پانی کا گلاس تھمایا لو پی لو ۔اس نے پانی پی کر گلاس تپائی پہ رکھا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا ۔دیکھ شبو میں نے تیری ہر ضد مانی جو تو نے کہا مانا مگر سچ تو یہ کہ تو نہیں ہارا تو نے اپنی پوری کوشش کی بس رب نے جہاں ہمارا رزق لکھا ہے نا وہیں ملنا ہے پتری تو دل چھوٹا نہ کر ۔گرو نے شبو عرف جمیل کا کندھا تھپکا ۔اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔شبو چٹائی پہ لیٹ گیا بازو لپیٹ کر سر کے نیچے رکھے اور کمرے کی چھت کو گھورنے لگا اس کی آنکھوں کے آگے پانی کی چادر تن گئی اور خیالوں کی کتاب کھلتی چلی گئی اسلم دعائیں کر رہا تھا اے اللہ اس بار تو مجھے بیٹے سے نواز دے تین رحمتیں اوپر تلے ہو گئیں اب نعمت کا منہ دکھا دے مالک ۔۔ اتنے میں اسلم کی ماں باہر آئی اس کے ساتھ دائی فاطمہ کھسر پھسرکر رہی تھی ۔اسلم نے بے تابی سے ماں کی طرف دیکھا ماں نے نظریں چرائیں اور فاطمہ کے ہاتھ پہ بہت سے روپے رکھے ۔اسلم نے اچھنبے سے ماں کو دیکھا اس کی سمجھ میں صورتحال نہیں آ رہی تھی فاطمہ کے جاتے ہی وہ ماں کی طرف بڑھا ماں کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا ؟ کیا ہوا ہے بیٹا ہوا نا اس کی بے تابی عروج پہ تھی یا اسے اپنی دعائوں پہ یقین تھا ۔اسلم وہ ۔۔ ماں نے ہکللاتے ہوئے اسے اصل صورتحال سے آگاہ کیا۔
اسلم کا رنگ زرد پڑ گیا وہ تیزیٰ سے کمرے کی طرف بڑھا چارپائی پہ لیٹی رضیہ نے غالبا اس کے تیور بھانپ لیے تھے اس نے ساتھ لیٹے کپڑے میں لپٹے بچے کو سینے سے لگا لیا نہیں اسلم یہ بے گناہ ہے ہماری اولاد ہے اس میں اس کا کیا قصور میں تجھے یہ ظلم کرنے نہیں دوں گی ۔اللہ سے ڈر ۔اسلم جھکے کندھوں اور آنسو بھری آنکھیں لے کر باہر نکل گیا ۔بات فاطمہ کے منہ سے کسی کو نہ بتانا کی یقین دہانی کے باوجود باہر نکلی اور کوٹھوں چڑھی ۔کسی نے خاموشی اختیار کی تو کسی نے دانتوں میں انگلیاں دابیں اور کسی نے ٹھٹھا مخول بنا لیا اسلم کے گھر خواجہ سرا نے جنم لیا ہے ۔جب یہ خبر گرو تک پہنچی تو وہ اسلم کے گھر آپہنچا ۔اس کا دعوا تھا یہ بچہ ہمارا ہے آج بھی اور کل بھی کیونکہ اسے خاندانی معاشرہ قبول نہیں کرے گا ۔قصہ مختصر چند دن کا جمیل ماں کی گرم آغوش سے نکل کر گرو کی گود میں آگیا ماں نے روتے ہوئے اس کی پیشانی چومی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کو کپکپاتے لبوں اور برستی آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے رخصت کر دیا ماں کے لیے تو بس وہ اس کی اولاد تھا بلا جنس کی تخصیص کے۔
مگر یہاں وہ بے بس تھی ۔ جمیل پانچ برس کا ہو گیا وہ ایک خاموش طبع بچہ تھا اسے گھر سے باہر نہیں بھیجا جاتا تھا وہ گرو کے ساتھ ساتھ رہتا ۔اب وہ اپنے ماحول کو بنظر ِغور دیکھتا کچی چار دیواری میں بنے تین کچے کمرے تھے ایک میں چھینو ،ریما اور بجلی رہتی تھی جبکہ دوسرے میں چاچا تاجو اور شیدا تھے جو اس پارٹی کے میوزیشن تھے جبکہ تیسرے میں گرو اور جمیل ہوتے تھے یہ کمرا نسبتا بڑا اور قدرے بہتر حالت میں تھا ۔نیچے موٹی چٹائی بچھی تھی اور اس پہ گدیلے نما گول تکیے تھے گن کے غلاف میلے ہو کر اپنی اصل رنگت کھو چکے تھے ایک طرف کھونٹی پہ گرو کے کپڑے ٹنگے تھے ایک بڑا سا ٹین کا بکس جس میں گرو ودہائیوں میں ملے کپڑے اور رقم رکھ کر تالا لگا دیا کرتا تھا ۔ گرو میں نے سکول جانا ہے جمیل نے ایک دن گرو سے فرمائش کی ۔وہ روزانہ گلی میں کھلنے والی کھڑکی میں کھڑا وردیوں میں ملبوس آپس میں چہلیں کرتے بچوں کو سکول جاتے دیکھا کرتا تھا آج وہ خواہش لفظ بن کر منہ سے نکلی گرو نے حیرانی سے جمیل کو دیکھا نہ پتر ہمارا سکول سے کیا لینا دینا تو چاچے تاجو سے سر تال سیکھا کر۔
مگر جمیل نے ایسی ضد پکڑی کہ چارپائی سے لگ گیا کھانا پینا چھوڑ دیا سوکھ کر کانٹا ہو گیا ۔گرو کو اس سے پیار ہی بڑا تھا اور اس کے بڑھاپے کا سہارا تھا اس نے اسے ایک دور سکول میں داخل کروا دیا چاچا تاجو اسے لاتا لے جاتا اس کی شناخت مخفی رکھی گئی جمیل بہت ذہیں ثابت ہوا اور ترقی کی منازل طے کرتا گیا ۔اب وہ آٹھویں میں بہنچ چکا تھا ۔گرو نے دبی زبان میں اسے منع کرنا چاھا مگر اس نے آگے پڑھنے کی ضد کی مگر اب اس کی متوالی چال اور آواز اس کا بھید کھولنے لگی تھی ۔اس میں زنانہ خصوصیات واضح ہونے لگیں تب اس نے ایک فیصلہ کیا اور گرو کی منت ترلے کرنے شروع کر دئیے ۔گرو کو مانتے ہی بنی اب جمیل نے میٹرک پرائیویٹ پاس کر لیا وہ بھی اعلی نمبروں سے اب اس میں علم کی پیاس اور بڑھتی جا رہی تھی مگر اب اس کے لیے بہت مشکل مرحلے تھے
مگر وہ ڈٹا رہا اور بی۔اے فرسٹ ڈویژن سے پاس کر لیا اب اس کے دماغ میں مقابلے کے امتحان کی دھن سمائی گرو نے اسے بہت سمجھایا مگر اس کی ضد تھی کہ کچھ سوچتی ہی نہ تھی اس نے اپنی شناخت کو شبنم اور برقعے کی آڑ میں چھپا لیا مگر کب تک امتحان کے دوران ایک امیر باپ کا بیٹا نقل کرتے پکڑا گیا اسے پرچہ لے کر باہر نکالدیا گیا وہ دھمکیاں دیتا چلا گیا چند منٹ کے بعد وہ غنڈوں سمیت آگیا اسلحہ کی نمائش اور مار پیٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا طلباو طالبات چیختے چلاتے بھاگے اس افراتفری کے دوران شبنم کا برقعہ کہاں سے کہاں چلا گیا کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی اور پولیس نے اپنی ایفشنسی دکھائی اور مجرم کے بجائے باقی طلباء گرفتار کر لئے ان میں شبنم بھی تھی اس کا راز کھل چکا تھا ۔وہ اب مذاق کا نشانہ بن رہا تھا ۔جیل سے چھوٹنے کے بعد وہ گرو کے پاس آگیا تھا وہ بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔
ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی انوں دل والے رنگلے پلنگ تے بٹھاواں گی جھلاں دی پکھیاں شبو فل میکپ میں ٹھمک رہی تھی اور حاضرین اس پہ روپے وار رہے تھے جبکہ گرو کی آنکھوں میں خوشی اور غمی دونوں کے آنسو تھے ۔ہار کا دکھ اور لوٹنے کی خوشی۔
تحریر : عفت