کیلیفورنیا میں ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ لکھ کر آرڈر دیتے ہیں وہ اونچی آواز میں آرڈر دینے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور صحت مند کھانا کھاتے ہیں
ایمسٹر ڈیم (یس اُردو) ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جب وہ کسی یوٹل یا ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں تو مینو دیکھ کر وہ بے اختیار ہو کر اونچی آواز میں کھانے کا آرڈر دیتے ہیں ، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہیں اور کھانے کے لیے موبائل پر یا بٹن دبا کر آرڈر دیتے ہیں ۔کیلیفورنیا میں ہونے والی تحقیق کے مطابق جو لوگ لکھ کر آرڈر دیتے ہیں وہ اونچی آواز میں آرڈر دینے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور صحت مند کھانا کھاتے ہیں ۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ اونچی آواز میں کھانے کا آرڈر دیتے ہیں وہ زیادہ کیلوریز والا کھانا کھاتے ہیں اور جولوگ کھانے کا انتخاب بٹن دبا کر یا پھر لکھ کر کرتے ہیں وہ زیادہ صحت مند کھانا کھاتے ہیں ۔محققین کا کہنا ہے کہ لکھ کر یاپھر بٹن دبا کر آرڈر دینے کی بجائے جب لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں تو دماغ کے بہت سے حصے ایک ساتھ سرگرم ہوجاتے ہیں اور دماغ کے جذبات والے حصے زیادہ تیزی سے کام کرتے ہیں جب کہ لکھ کر آرڈر دینے سے دماغ کے پیچیدہ حصے زیادہ کام کرتے ہیں ۔تحقیق کے مطابق اونچی آواز کے دوران بے چینی کے جذبات زیادہ باہر آتے ہیں جب کہ مینول آرڈر کے دوران ایسا نہیں ہوتا۔ ریسٹورنٹ میں کیے گئے ایک تجربے میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ اونچی آواز میں آرڈر دے رہے تھے وہ زیادہ کیلوریز والی چاکلیٹ وغیر منگوا رہے تھے جب کہ بٹن دبا کر کھانا منگوانے والے کم کیلوریز والے کھانے جیسے پھل وغیرہ کا آرڈر دے رہے تھے ۔