تحریر : شاہد شکیل
بچوں کے ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ان پر دھونس اور بے جا دباؤ ان کی صحت ، مستقبل اور زندگی کیلئے شدید نقصان دہ ہے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے مثلاً مار پیٹ اور جنسی استحصال وغیرہ سے زیادہ تکلیف دہ ان پر رعب جھاڑنا ،دھونس جماناایک غیر انسانی عمل ہے جس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو تے ہیں جسمانی استحصال ایک ناقابل تلافی جرم ہے اس عمل سے بچوں کی ذہنی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے لیکن نفسیاتی دباؤ سے ان کی صحت اور زندگی پر مزید گہرا اثر پڑتا ہے بدیگر الفاظ انہیں شدید ذہنی چوٹ اور گھاؤ لگتا ہے،مثلاً ہوم ورک کرتے ہوئے یا دورانِ کھیل کود اگر کوتاہی ہو جائے تو انہیں دائرہ اخلاق ،شفقت اور پیار محبت سے سمجھانے کی بجائے دھونس ،دھمکی یا خوف میں مبتلا کرنے سے انہیں شدید ذہنی اذیت پہنچتی ہے۔
بر طانوی یو نیورسٹی آف واروک کے ایک ماہر نفسیات نے اعداد و شمار کے مطابق پانچ ہزار پانچ سو بچوں کے ساتھ جن کی عمریں دو ماہ سے سولہ سال تھیں ایک طویل مطالعہ کیا اور یہ نتائج اخذ کئے کہ جو بچے والدین کی غفلت ،مار پیٹ یا جنسی استحصال کا شکار ہوئے لیکن انہیں ڈرایا دھمکایا یا دھونس نہیں جمائی گئی اگرچہ وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوئے اور ذہنی صلاحیت متاثر ہوئی لیکن جن بچوں کے ساتھ والدین نے نفسیاتی غنڈہ گردی کی وہ زیادہ متاثر ہوئے،
محقیقین کے بچوں کی نفسیات پر شائع ہونے والے میگزین لینسیٹ فیسیٹری میں بتایا گیا کہ جن بچوں کے ساتھ دونوں اقسام کی زیادتیاں کی گئیں وہ نفسیاتی طور پر شدید ڈپریشن کا شکار ہوئے اور ذہنی عوارض کا خطرہ مزید بڑھ گیاذہنی بیماری اور بے چینی پھیل جانے سے ان کے مستقبل اور ترقی کی راہ میں مشکلات پیدا ہوئیں اور خوف میں مبتلا رہنے کے سبب کئی صلاحیتوں سے محروم رہ گئے،بچوں کی ان محرومیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار ان کے والدین کو ٹھہرایا گیا ،اعداد و شمار کے مطابق ذہنی عوارض ان کے ایفیکٹ اور عوامل بدستور قائم رہنے میں والدین کی غیر ذمہ داری اور غفلت کا نتیجہ ثابت کئے گئے،
میگزین میں بتایا گیا کہ نفسیاتی امراض کے ماہرین اور مصنیفین نے کئی بار سنجیدگی سے والدین کی توجہ اس اہم موضوع پر دلانے کی کوشش کی اور اس بات پر زور دیا کہ نرمی، شفقت اور اخلاق سے ہی بچوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے نہ کہ تشدد اور دھونس جمانے کے علاوہ ہر بات میں دخل اندازی کرنے یا منفی سوچ رکھنے سے ان کے دماغی فلٹر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے ان کی صلاحیتیں مفلوج ہونے کا خدشہ ہے ،بچوں کو ہمیشہ نرمی سے اور تفصیلاً ہر بات پر توجہ اور روزمرہ زندگی میں سلیقے اور ترتیب سے سمجھانا ہی مسائل پر قابو پانا ہے۔دوسری طرف امریکی ماہرین کا کہنا ہے موجودہ سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں والدین کی غنڈہ گردی کی کوئی گنجائش نہیں
ہیمپشائر یونیورسٹی کے ان ماہرین کہنا ہے کہ ہمارا نقطہ نظر قدرے مختلف ہے اگرچہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ والدین بچوں پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ آج کے پر تشدد میڈیا کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا والدین کی عدم توجہ کے نتائج ہیں کہ امریکی سکولوں میں دہشت گردی کے واقعات اور دنیا بھر میں بچوں نے جارحانہ رویہ اپنا لیا ہے سائنسی ترقی انسان کی بھلائی میں مثبت رول ادا کرتی ہے لیکن والدین کا اولین فرض ہے کہ اپنے بچوں کو فوکس کریں،ماہرین نے شدید تنقید کرتے ہوئے مغربی ممالک میں قائم بچوں کے تحفظ کی ایجنسیوں کو اپیل کی ہے کہ اس اہم اور تشویشناک صورت حال میں والدین کی بد سلوکی ،عدم توجہ اور غیر ذمہ داری کے خلاف اقدامات کریں
تاکہ کم سے کم بچے اس غنڈہ گردی (ٹارچر) سے متاثر ہوںاور سکول جانے والے بچوں پر دو طرفہ پریشر ایک طرف غیر ذمہ دار والدین اور دوسری طرف اساتذہ سے ممکنہ طور پر آزاد ہوں کیونکہ مغربی ممالک میں بچے والدین اور اساتذہ کے خوف سے اور ایشیا ئی ممالک میں تشدد اور دھونس کا شکار ہوتے ہیںکئی افراد بچوں کی معصومیت اور خاموشی سے فائدہ اٹھاتے اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔
آسٹریلین انسٹیوٹ آف فیملی سٹڈیز کے ماہرین نے گزشتہ سال بچوں کی پرورش اور خاندانی معاملات کے موضوع پر شائع ہونے والے میگزین فیملی میٹرز میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کے ساتھ دھونس ،دھمکیاں ،غیر منصفانہ رویہ ،پرورش میں غفلت ، بدسلوکی ،جنسی زیادتی کے نتائج نہایت خطرناک ثابت ہوتے ہیں طویل مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے بچے دماغی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ماہرین کے مطالعوں ،تبصروں ،تحقیق اور قدرے متضاد نتائج سے ثابت ہوا کہ بچوں کو ان کے حقوق سے آشنا ہونا چاہئے
والدین کا فرض ہے کہ بچوں سے نرمی اور شفقت سے پیش آئیں انہیں ذہنی یا جسمانی ٹارچر کرنے سے انکی صلاحیتوں پر برا اثر پڑتا ہے اور دماغ مفلوج ہونے کا خطرہ ہوتا ہے والدین بچوں میں خود اعتمادی ، خود مختاری، حوصلہ اور مضبوط ارادہ اجاگر کریں نہ کہ الزام یا تہمت لگائیں اور سب سے بڑھ کر دروغ گوئی سے پر ہیز کیا جائے ،ان پر کڑی نظر رکھی جائے نہ کہ تشدد کا راستہ اپنایا جائے انکی ہر بات کو تحمل سے سنا جائے اور برداشت کیا جائے منفی رد عمل سے انہیں ذہنی چوٹ پہنچ سکتی ہے،
والدین توجہ سے بچوں کی بات سنیں گے تو بچے بھی والدین کی بات کو توجہ سے سنیں گے اور یقینا عمل بھی کریں گے دھونس اور تشدد سے پرورش پائے جانے والے بچے اکثر صحت کی خرابی کے علاوہ مستقبل اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ناکام ہو کر خودکشی جیسے عمل کا سہارا لیتے ہیں فیصلہ والدین نے کرنا ہے۔
تحریر : شاہد شکیل