تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
جسکو بھی دیکھو! بس روپے پیسے کے لئے بھاگ رہا ہے، یہ روپے پیسے ہی کا کھیل ہے جو آج ایک بھائی نے دوسرے بھائی سے منہ موڑ لیا ہے،ظاہری آن بان ٹھاٹھ کے لئے صرف اور صرف روپے اور پیسے کے لئے اپنا دین ایمان اور جسم تک انسان فروخت کر رہا ہے، مجھے اس چیز سے انکار نہیں کہ ہمارے معاشرے میں غربت بھی ایک جرم ہے ، اللہ پاک کے پیارے نبی ۖ کا فرمان ِ عالی شان ہے کہ ایک وقت آئے گا لوگوں کا دین ایمان پیسہ ہوگا، یہ روپے اور پیسے ہی ہے جس کے مطلق کسی شاعر نے کہا تھا۔
کہتا تو نہیں کہوں تو گناہ گار ہوں
پیسہ بھی اس دنیا میں خدا ہے۔
روپے پیسے کی اہمیت سے انکار مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ گزشتہ دنوں جہلم کے معروف صحافی و سماجی کارکن ندیم ساجد مغل کواڈینیٹر تنظیمِ مغلیہ جہلم سے ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی تو عقل دنگ رہ گئی، ایک ایسا جوان جو جہلم کے چپہ چپہ کو چھاننے کے بعد پورے پاکستان میں مغلوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رہا ہے صرف اکٹھا ہی نہیں کر رہا بلکہ گروپوں ، علاقائی، صوبائی، رنگ نسل کی تفریق کے بغیر پیار اور محبت بانٹ رہا ہے۔ 14 فروری کو دنیا ویلن ٹائنڈے منا رہی ہے اور تنظیم مغلیہ جہلم ، مغل سلطنت کے بانی مہربان بادشاہ، عظیم جنرل، بہترین شاعر مصنف اور مقررومترجم شہنشاہِ ہند مرزا ظہیر الدین محمد بابر کا 533 واں یومِ پیدائش منارہی ہیں،اس مغل کنونشن میں پہلی بار بابری ایوارڈ بھی دئے جائیں گئے۔
تاریخ کے آئینے میں نام ظہیر الدین محمد۔ ماں پیار سے بابر(شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ چچا اور ماموں? نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر 1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ یہاں سے اس نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔ شہنشاہ بابر کی ایک پینٹنگ پہلی جنگ پانی پت:21 اپریل 1526ئ۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان ابراہیم لودھی اپنے امراء اور فوج میں مقبول نہ تھا۔وہ ایک شکی مزاج انسان تھا لاتعداد امراء اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے،یہی وجہ ہے کہ دولت خان لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کررنے کی دعوت دی اور مالی وفوجی مدد کا یقین دلایا۔ بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی فوج بہت جلدتتر بتر ہوگئی۔
ابراہیم لودھی مارا گیا بابر فاتح تھا۔پانی پت کی جنگ میں فتح پانے کے بعد بابرنے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔یہاں اس کا استقبال ابراہیم لودھی کی ماں بوا بیگم نے کیا۔بابر نے نہایت ادب واحترام سے اسے ماں کا درجہ دیا دہلی کے تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر گوالیار، حصار، میوات، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر 1530ء کو آگرہ میں انتقال کیا اور حسب وصیت کابل میں دفن ہوا۔ اس کے پڑپوتے جہانگیر نے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی جو بابر باغ کے نام سے مشہور ہے۔
بارہ سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور بالآخر اپنی آئندہ نسل کے لیے ہندوستان میں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ توزک بابری اس کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا۔ظہیر الدین محمد بابر خاندان تیموریپیدائش: 14 فروری 1483 وفات: 26 دسمبر 1530۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا