تحریر: اختر سردار چودھری ، کسووال
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے پاکستان میں بھی گزشتہ کچھ برسوں سے عام لوگوں کی معلومات اور آگہی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ جہاں اس دن کو منانے والے جوش و فروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہیں پر اس دن کی مخالفت کر نے والے بھی کم نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ویلنٹائن ڈے جیسی روایت موجودنہ ہوتی تو کیادنیا میں اظہارِ محبت کر نے کی روایت موجود ہوتی۔ یقینااسکا جواب نفی میں نہیں ہو گا ۔
صرف چند افراد ایسے ہیں جو اس دن کو عیاشی کے حوالے سے مناتے ہیں یا منا سکنے کی طاقت رکھتے ہیں، ایسے لوگ زیادہ تر امیر گھروں سے تعلق رکھتے ہیں ،ایک غریب تو اسے افورڈ نہیں کر سکتا ،ہم دیکھتے ہیں معاشرے میں کیا اب کوئی محبت نہیں کرتا اور ویلنٹائن کی وجہ سے نوجوان محبت کرنے لگے ہیں ایسا نہیں ہے ،ہمارے تمام ٹی وی شو کیا سیکھا رہے ہیں، اس پر بھی نظر کرم کرنی چاہیے ،ہمارے جتنے گانے ہیں ،کہانیاں ہیں ،بلکہ لوک کہانیاں ہیں یہ سب محبت ہی سیکھاتی ہیں ۔
حیا نہیں زمانے کے آنکھ میں باقی
خداکرے کی جوانی تیری راہے بے داغ
محبت کا یومِ ویلنٹائن ڈے 14 فروری حقیقت میں محبت کا یومِ شہادت ہے۔ ویلنٹائن ایک نوجوان پادری تھا،جسے سن 270 میں شہیدِ محبت کر دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں مارکس آرے لئیس سن 270 میں روم کا شہنشاہ تھا۔ شہنشاہ کو اپنی فوج میں اضافے کیلئے فوری طور پر افرادی قوت کی ضرورت پڑ گئی۔ سو اس نے اپنے ہرنمائندے ملک میں پھیلا دئیے تاکہ وہ اس کیلئے کنوارے نوجوانوں کو بھرتی کر سکیں۔رومی نوجوانوں نے شادیاں کرنا شروع کر دیں ۔اطلاع شہنشاہ کو پہنچی تو اس نے شادیوں پر پابندی نافذ کر دی۔
ویلنٹائن نے شہنشاہ کے اس فرمان کو ناجائز قرار دیا۔خفیہ شادیاں کرانے لگا ۔یہ بات زیادہ دیر تک نہ چھپی رہ سکی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ قید کے دوران نوجوان ویلنٹائن کی داروغہ جیل کی لڑکی سے دوستی ہو گئی۔ آخر ویلنٹائن لکھا کرتابعد میں ویلنٹائن کا سر قلم کر دیا گیا۔ رومن کیتھولک چرچ 14 فروری کو اسکا یومِ شہادت مناتا ہے۔
آج کل جدید دور میں ویلنٹائن ڈے موبائل ایس ایم ایس بھیج کر بھی منایا جاتا ہے یا شوشل میڈیا وغیرہ پر منایا جاتا ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کینیڈا، امریکہ ، فرانس ، میکسیکو ، برطانیہ آسٹریلیااور دیگر ممالک میں بھی منایا جاتا ہے۔
برطانیہ میں یہ دن 17 ویں صدی میں منانے کا آغاز ہوا۔ انگلستان کے لوگ اس دن پر اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں اور عاشق اپنی محبوبائوں کو خطوط لکھا کر تے تھے۔بعدازاں اس حوالے سے کارڈچھپنا شروع ہو گئے۔ ان کارڈوں کی اشاعت سے خطوط لکھنے میں آسانی پیدا ہو گئی اور مغرب میں اس دن کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا۔
فن لینڈ میں 14 فروری کے دن کو مقامی زبان میں جس لفظ سے پکارا جاتا ہے، اس کا اردو میں معنی ہیں۔” دوستوں کا دن” فن لینڈ میں اس دن کو صرف صنف مخالف سے اظہارِ محبت کے لئے مخصوص نہیں سمجھا جاتابلکہ اس دن اپنے تمام دوستوں کے ساتھ دوستی کی تجدید کی جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرست پیش پیش ہیں ۔وہاں یہ دن جنسی ہوس کی آزادانہ تسکین کا دن سمجھا جاتا ہے ۔بھارت میں اس دن کو منانے والوں کو سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں اور برا سمجھا جاتا ہے ۔ایک تنظیم ہندو مہاسبھا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کْھلے عام آئی لو یو کہنے والے جوڑوں کی زبردستی شادی کروائے گی۔سعودی عرب میں 2008 سے ویلنٹائن کے حوالے سے کسی بھی چیز کی فروخت پر پابندی ہے ۔سعودی عرب میں مسلمان یہ تہوار نہیں منا سکتے ۔
پاکستان میں گذشتہ چند سال سے ملی جلی کیفیت ہے، ایک طرف اس دن کومنانے کا جذبہ نوجوانوں میںبڑھ رہا ہے تو دوسری طرف مخالفت میں بھی شدت آ رہی ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ اس دن پھولوں اور کارڈز کی فروخت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔میرا ویلنٹائن کے بارے صرف اتنا کہنا ہے کہ اچھی اور بری نیت ہی ہوتی ہے ،میں تو اپنے سارے دوستوںسے کہتاہوںکہ مجھے تم سے محبت ہے اورآپ بھی اپنے دوستوں کو اپنی محبت کا یقین دلائیں ۔ ویلنٹائن تو دوسروں کی شادیاں کروایا کرتا تھا ،شادی کروانا تو ثواب کا کام ہے ۔اور ویلنٹائن کو ہم برا نہیں کہتے ۔حکومت کو چاہیے کہ ایسا قانون بنایا جائے جس سے ویلنٹائن منانے والوں کی شادی کردی جائے ۔اور یہ شادی سخت شرائط پر ہو ۔ویلنٹائن ڈے کو عیاشی کے لئے جو استعمال کر رہے ہیںان کا یہ ہی حل ہے ۔کیونکہ ویلنٹائن جوڑوں کی شادیاں کروایا کرتا تھا ۔اور اس کے نام سے یہ دن منایا جاتا ہے ۔
تحریر: اختر سردار چودھری ، کسووال