موضوع پر نظر ڈالتے ہی آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ شاید اس کالم میں کسی ایسی داستانِ عشق کا تذکرہ ہوگا جو خاص طور پر گورنمنٹ کالج لاہور میں پروان چڑھی مگر آپ کا چسکا اس بات سے مزید بڑھ جائے گا کہ یہاں کوئی ایک نہیں لاکھوں عشق کی داستانیں پروان چڑھی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا ہر طالب علم عشق کی داستان کی کہانی سناتا ہے کوئی خاتون ہو یا مرد، اگر اس نے گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی ہو تو وہ ساری زندگی اس عظیم درسگاہ کے عشق میں مبتلا رہتا ہے۔ لوگ آج کل اسے جی سی یو کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر لوگوں کا حقیقی عشق گورنمنٹ کالج لاہور ہی سے ہے۔ یہ ادارہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے بھی اہم تھا، بعد میں بھی اہم رہا، اس کے طالب علموں نے یادگار داستانیں رقم کیں۔ اس کے طالب علموں کے حصے میں نشانِ حیدر سمیت اعلیٰ ترین اعزازات آئے۔ اس نے علامہ اقبالؒ جیسا عظیم مفکر دیا، جن کی شاعری نے سوئے ہوئوں کو جگا دیا اور ولولے تازہ کئے۔ یہی عظیم درسگاہ فیضؔ جیسے رمانوی شاعر کو جنم دیتی ہے، یہیں کے خواجہ خورشید انور کے بغیر موسیقی ادھوری رہتی ہے۔ بلراج ثانی اور دیو آنند فن کی دنیا میں زندہ رہیں گے۔ راوین امرتا پریتم کو کون بھول سکتا ہے اور خشونت سنگھ کا تو لفظ لفظ رومانس سے بھرا پڑا ہے۔ مشرقی پنجاب کا کامیاب وزیراعلیٰ بے انت سنگھ بھی تو گورنمنٹ کالج لاہور ہی کا پڑھا ہوا تھا۔ نام لکھوں تو کالم کم پڑ جائے گا، یہ سب لوگ گورنمنٹ کالج کی سرزمین سے، اس کے بلند و بالا ٹاور سے، اس کی دلنشیں عمارت سے عشق کرتے ہیں، پتا نہیں اس کالج کی زمین کو کیا شرف حاصل ہے، یہ فیض بخشتی ہے، جو قدم یہاں آئے پھر اسے بھول نہ پائے۔
سائنس کی دنیا میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند سمیت کئی نام ہیں جو یہاں سے فارغ التحصیل ہیں۔ جنرل راحیل شریف، جنرل افتخار جنجوعہ اور سابق بھارتی فیلڈ مارشل، ایئر مارشل ارجن سنگھ سمیت کئی ایسے فوجی افسران جنہوں نے کامیابی کی داستانیں رقم کیں، اسی عظیم درس گاہ سے پڑھے۔شاعروں کے نام لکھوں تو اس داستان میں اتنے نام ہیں کہ کالم سے کہیں زیادہ، اگر بیورو کریٹس کے نام رقم کروں تو کئی کتابیں لکھنا پڑیں گی کہ بیورو کریسی تو دی ہی گورنمنٹ کالج لاہور نے ہے۔ عدالتوں پر نگاہ ڈالیں تو موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت کئی شخصیات راوین ہی تو ہیں، ان سے پہلے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے تھے، کرکٹ میں رمیض راجہ، عامر سہیل اور انضمام الحق یادگار کرکٹر ہیں، کئی اداروں کے تو نام ہی نہیں لکھ رہا، وکلاء میں ایس ایم ظفر، چوہدری اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ، احمد چھچھر، اعظم نذیر تارڑ، ضیاء رضوی، رمضان چوہدری اور نعیم بخاری سمیت سینکڑوں نام ہیں۔ شعبہ صحافت میں کس کس کا نام لکھوں، طویل فہرست ہے کسی کا نام بھول جائوں تو پیشگی معذرت۔ محمود شام، حامد میر، ڈاکٹر صفدر محمود، محمد مالک، آفتاب اقبال، نصرت جاوید، پی جے میر، امتنان شاہد، خاور گھمن، زاہد گوگی، جنید اقبال، یاسر پیرزادہ، واصف ناگی، عمر مجیب شامی، انیق ناجی، نور الحسن، عالیہ شاہ، فاروق حسن، ڈاکٹر فری امین اور اپنے اقرار الحسن سمیت سینکڑوں نام ہیں، پروفیسر عابد فاروق بھی تو وہیں کے ہیں، خالد عباس ڈار بھی وہیں کے ہیں۔ گانے والوں میں پرانے ناموروں کو یاد کیا کروں، یہاں کے تو نئے بھی شاندار ہیں۔ چند نئے گانے والوں میں شفقت امانت علی، حدیقہ کیانی، عمران شوکت علی، سلطان فتح علی اور ذیشان مغل سمیت کئی نام ہیں۔
رہی سیاست تو ظفر اللہ جمالی سمیت کتنے بلوچ سردار گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھے۔ یوسف رضا گیلانی اور فیصل صالح حیات جیسے گدی نشین بھی یہیں پڑھے، میاں نواز شریف، خواجہ آصف، احسن اقبال اور اسحاق ڈار کا نام بھی آتا ہے۔ موجودہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کا بھی نام آتا ہے۔ طارق بشیر چیمہ، فواد چوہدری، شفقت محمود اور شہریار آفریدی بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے ہی پڑھے ہوئے ہیں۔ ن لیگی ترجمان ملک احمد خان بھی۔ نام بہت ہیں کس کس کا نام لکھوں۔ داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے بغیر گورنمنٹ کالج لاہور کی داستانِ عشق مکمل نہیں ہوتی۔ خواتین و حضرات! مجھے معلوم ہے کہ کئی نام مجھ سے رہ گئے ہوں گے مگر عظیم نام ہیں، بالکل راجہ عظیم کی طرح، شیخ منصور اور فیضان غنی جیسے، حاجی مقصود اور میاں سہیل جیوے کا جیسے۔ نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ تو خود ایک مکمل داستان ہے۔
اس مرتبہ راوینز کے دو ڈنر تھے ایک محفل ہارے ہوئوں نے ایک ہوٹل میں سجائی تھی جہاں ذوالفقار چیمہ کی باتوں سے بدمزگی ہوئی، رہی سہی کسر احسن اقبال نے پوری کر دی، جب کالج کی داستانوں میں لوگ سیاست کو کھینچ لائیں تو پھر سیاست کا عظیم دانشور اعتزاز احسن کیا کر سکتا ہے۔ اس تقریب کو (ن) لیگی رنگ چڑھا ہوا تھا۔ دوسری تقریب اگرچہ کالج کے اندر اوول گرائونڈ میں تھی مگر وہاں بھی راجہ فاروق حیدر ہی مہمانِ خصوصی تھے جو ایک رات پہلے ہارے ہوئوں کے بھی مہمانِ خصوصی تھے۔ اس بات کو پیارے ارشد اولکھ نے محسوس کیا کہ (ن) لیگی رنگ ہے۔ اولڈ راوین یونین کے موجودہ منتخب صدر میاں اشفاق موہلن اور سیکرٹری اپنے پیارے طیب رضوی کو بھی سوچنا چاہئے تھا۔ وہ موجودہ چیف جسٹس کو بھی مدعو کر سکتے تھے، شہریار آفریدی بھی آئے تھے، دو مہمانِ خصوصی بنا لیتے۔
اوول میں داخل ہوتے ہی میری ملاقات معروف صحافی حامد میر سے ہوئی، یہاں جی سی یو کے نام کے حوالے سے بات ہوئی کہ اس کا نام گورنمنٹ کالج لاہور ہی ہونا چاہئے۔ حامد میر نے راجہ فاروق حیدر سے شکوہ کیا کہ آپ کل ہارے ہوئے لوگوں کے پاس کیوں گئے؟ جسے انہوں نے بڑی صفائی سے اسٹاف کی غلطی قرار دیا۔ مہمانوں کو مدعو کرتے وقت اولڈ راوین یونین کے عہدیداروں کے علاوہ ڈاکٹر بٹ اور جی سی یو کے وی سی ڈاکٹر حسن امیر شاہ کو خوب مشاورت کرنا چاہئے تاکہ اختلاف کی گنجائش کم سے کم ہو۔ ویسے ڈاکٹر حسن امیر شاہ کے والد گرامی کو بھٹو صاحب نے وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا مگر حلف اٹھانا ان کے نصیب میں نہ ہو سکا۔ نصیب ہی سب کچھ ہے مگر لوگ کہاں سوچتے ہیں کہ ؎
درگاہوں پر جھاڑو دینے والوں نے سمجھایا ہے
یار کے غم میں رونے والی آنکھ بڑا سرمایہ ہے