تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضائوں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیف ُ سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھیں ۔عاشقان ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہروں پر عقیدت و احترام کے سینکڑوں چاند روشن تھے۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے پروانوں کی درود و سلام کی صدائوں سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کونہ کونہ گونج رہا تھا۔
پوری دنیا سے آئے ہوئے یہ عاشقان ِ رسول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار تھے مگر کچھ لوگ جانثاروں کی صف میں بہت نمایاں ہوتے ہیں یہ لوگ شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر سنت کو زندہ کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ ساتھ شاہان ِ وقت سے بھی جنگ کرتے ہیں۔سرورِ دوعالم سے محبت کا یہ عالم کہ اپنی ایک ایک سانس کو مزاج ِ نبوت کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے ہی عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولیا اللہ کے نام قیامت تک امر ہو جاتے ہیں کہاں گئے وہ ظالم حکمران آج زیرِ زمین حشرات الارض اُن کی ہڈیوں میں سوراخ کر چکے ہونگے ۔کیڑے مکوڑے اُن کی ہڈیوں کو بھی کھا چکے ہونگے ۔اُن کے مقبرے آج ابابیلوں کے مسکن ہیں۔
کوئی فاتحہ خواں نہیں کوئی چراغ روشن نہیں آج اُن ظالموں پر کیا عالم تنہائی اور بے بسی ہے ۔روز و شب کے ہنگامے اِسی طرح جاری رہیں گے زمین اِسی طرح اپنے محور پر گھومتی رہے گی ۔ لیکن قیامت تک روزانہ اِسی طرح ہجوم ِ عاشقان کی کثیر تعداد روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عقیدت کے پھول نچاور کرتی رہے گی ہر نئے دن کے ساتھ ہی اِس کی تعداد اور عشق و احترام میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ چودہ صدیوں سے عاشقان ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قافلہ عقیدت و احترام اور درود و سلام کی صدائوں کے ساتھ رواں دواں ہے اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ چودہ صدیوں کے تصور کے ساتھ ہی ایک خیال برقی رو کی طرح آیا اور میرے دل و دماغ کو ہلا کر چلا گیا۔
سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دن ۔ جب دعوت و تبلیغ کا کام پورا ہو گیا جب ایک نئے اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل عمل میں آگئی اب گویا غیبی ہاتف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل و دماغ کو یہ احساس دلا رہا تھا کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا زمانہ اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے ١٠ ھ میں جب آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو رخصت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ غالباً تُم مجھ سے میرے اِس سال کے بعد نہ مل سکو بلکہ غالباً میری اِس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو حضرت معاذ یہ سن کر شافع ِ محشر کی جدائی کے غم میں رونے لگے پھر حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخی جامع خطبہ ارشاد فرمایا ۔اے لوگوں میری بات سنو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید اِس سال کے بعد اِس مقام پر تم سے کبھی نہ مل سکوں گا۔
میں تم میں اِیسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اُسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اِس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب لوگوں یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں لہذا اپنے رب کی عبادت کرنا پانچ وقت کی نماز پڑھنا رمضان کے روزے رکھنا ۔ خوشی سے اپنے مال کی زکوة دینا۔ اپنے اللہ کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوگے (ابنِ ماجہ) اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے صحابہ نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کر دی پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت ِ شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا اے اللہ گواہ رہنا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ فرما چکے تو پروردگار نے یہ آیت نازل فر مائی ترجمہ : آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کوبحثیت دین پسند فرمایا جب یہ آیت مبارکہ حضرت عمر فاروق نے سنی تو بہت روئے پوچھنے پر کہ آپ کیوں رو رہے ہیں تو فرمایا اِس لیے کہ کما ل کے بعد زوال ہے تمام مناسک ِ حج سے فارغ ہو کر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف لوٹ گئے۔ اب دعوتِ دین مکمل ہوگئی تھی اب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال و گفتار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہو گیئں تھیں کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس حیات مستعمار اور اِس جہان ِ فانی کے باشندگان اور اپنے پروانوں کو الوداع کہنے والے ہیں ۔ ١٠ ھ رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس 20دن کا اعتکاف فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اِس سال حضرت جبرائیل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو مرتبہ قرآن کا دورہ کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دور کرایا کرتے تھے اور حج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ سے حج کے اعمال سیکھ لو کیونکہ شاید اِس کے بعد میں حج نہ کر سکوں پھر ایام تشریق کے وسط میں سورة نصر نازل ہوئی اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے جانے کا وقت آن پہنچا ہے صفر ١١ ھ میں آپ احد میں شہدا کی قبروں پر تشریف لے گئے اور اِس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں پھر واپس آکر منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا میں تمھارا امیرِ کاروان ہوں اور تم پر گواہ ہوں بخدا میں اِس وقت اپنا حوض ِ کوثر دیکھ رہا ہوں مجھے زمین اورزمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور بخدا مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ اندیشہ اِس کا ہے کہ دنیا طلبی میں باہم مقابلہ کرو گے (متفق علیہ) ۔ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع تشریف لے گئے اور جا کر اہل بقیع کے لیے دعا ئے مغفرت کی فرمایا اے قبر والوں تم پر سلا م ہو فتنے سیاہ رات کے ٹکڑے کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے زیادہ بُرا ہے اور یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دہ کہ جلد ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔
29صفر ١١ ھ روز دو شنبہ کو سرور ِ دو عالم ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے جنازے سے فراغت کے بعد واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دردِ سر شروع ہو گیا ۔ دردِ سر کی شدت سے تیز حرارت ہو گئی کہ سر مبارک پر بندھی پٹی کے اوپر سے حرارت محسوس ہونے لگی ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت کا آغاز تھا ۔ فخرِ دوعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس مرض میں تقریباً 13یا 14دن تک مبتلا رہے ۔ شہنشاہ ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی بیماری کے عالم میں گیارہ دن تک نماز پڑھائی ۔ شافع محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری بڑھتی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جا رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازواج مطہرات سے پوچھتے کہ کل میں کہاں رہوں گا ۔ ازواج ِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوال کو سمجھ گئیں ۔ اِس لیے ا نہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں چاہیں رہیں ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ کے حجرہ مبارک یعنی مکان میں داخل ہوگئے ۔ حضرت عائشہ کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فضل بن عباس اور حضرت علی بن ابی طالب سہارا دے کر لے گئے ۔ شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے صحابہ کرام بہت زیادہ دکھی اور مضطراب تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری کی وجہ سے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے چین ، بے قرار اور بہت زیادہ غمگین تھے بار بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحت یابی کی دعائیں کی جارہی تھیں ۔ جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ کے مکان میں منتقل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ِ مبارکہ کا آخری ہفتہ حضرت عائشہ کے مکان میں گذارا۔ دوران بیماری ہماری ماں حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دم کرتی رہتی تھیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جسم کی حرارت اور بڑھتی جا رہی تھی ۔شفاء اور صحت یابی کی امید میں حضرت عائشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک پر بار بار پھیرتی تھیں کہ دستِ اقدس کی برکت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری شفا میں تبدیل ہو جائے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org