تحریر : مسز جمشید خاکوانی
1961 میں بھٹو کی ملاقات ڈھاکہ کے ایک وکیل عبدالاحد کی بیوی حسنہ شیخ سے ہوئی اور اس نے پہلی ہی ملاقات میں بھٹو پر جادو کر دیا۔ نصرت بھٹو کو معلوم ہوا تو انہوں نے شور مچا دیا بھٹو نے غصے میں آکر انہیں گھر سے نکال دیا وہ ارد شیر کائوس جی کے پاس پہنچیں جنھوں نے نصرت کی بھٹو سے شادی کرائی تھی ،کائوس جی کی بیگم نصرت کو ایوب خان کے پاس لے گئیں ،ایوب خان نے بھٹو کو طلب کیا اور کہا ”اپنی بیوی کو واپس لائو یا کابینہ سے چھٹی کرو۔
مری کے دلفریب مقام پر پنجاب ٹور زم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی چیئر لفٹ سے گلوکارہ طاہرہ سید کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے محروم کر دیا طاہرہ سید کو یہ لفٹ نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں ادا کی تھی اس لفٹ سے طاہرہ سید کو روزانہ ہزاروں روپے کی آمدن ہوتی تھی اور نواز شریف کی منظور نظر ہونے کی بدولت وہ حکومت کے مقرر کردہ کرایہ سے زیادہ رقم وصول کرتی تھی جس سے ادارے کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔۔نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں طاہرہ سید کو وزیر اعظم ہائوس میں خاتون اول کی طرح پزیرائی حاصل تھی ۔۔علحیدگی کے بعد نعیم بخاری نے بڑے دکھی دل سے کہا تھا کہ میں ہی گاڑی کو گھسیٹ رہا تھا گاڑی کے طاہرہ سید والے پہیے نے تو ابتدا میں ہی زندگی کی گاڑی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔
مہمان نواز میاں نواز شریف دلشاد بیگم کی ادائوں پر ایسے مر مٹے کہ اسے پاکستان میں سرکاری مہمان کی حیثیت حاصل ہو گئی ۔قومی اسمبلی میں اس معاملے پر باقائدہ سوال اٹھایا گیا کہ ایک غیر ملکی خاتون کس طرح پاکستان میں سرکاری پروٹوکول کی مستحق قرار دی جا رہی ہے جبکہ اس کا تعلق دشمن ملک (بھارت) سے ہے ۔اس کتاب میں ایک بڑے مزے کی بات لکھی ہے کہ سیاستدانوں کی ایسی رنگین و سنگین حرکتوں کو شرمناک کہا جاتا ہے جبکہ ہماری نظر میں یہ انکے کارنامے ہیں اگر وہ یہ کارنامے انجام نہیں دیں گے تو اور کیا کریں گے قانون سازی انہیں آتی نہیں ہے۔
اس لیئے وہ ایسی حرکتوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور سرکاری خزانے سے طوائف جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ شائد اس سے بھی بد تر ۔اور اس بار تو یہ کھلواڑ سب بنے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر مل کے کھیلا ہے بظاہر ایک دوسرے کو گھسیٹتے رہے اور اندرو اندری ایک جان دو قالب ۔۔۔لہذا اب سلوک بھی ایک جیسا ہو گا دہائیاں دینے سے بہتر ہے اپنا قبلہ درست کر لیں زرداری کو بھی وہی سزا ملنی چاہئے جو ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو ملی یعنی حقہ پانی بند ،یہ سب سے بہترین سزا ہے کہ نہ انکی آواز یہاں پہنچے نہ لوگ خوف زدہ خدا کی قسم میں کلمہ پڑھ کے کہتی ہوں مجھ سے ایم کیو ایم کے کئی لوگوں نے رابطہ کر کے کہا کہ خدا نے ہمیں اس منحوس سے نجات دلائی ہے۔
انہیں اس طرح مھدود کر کے بھی آدھے جرائم ختم کیئے جا سکتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کیا ہم میں شعور نہیں ہے ہم اپنا برا بھلا خود کیوں نہیں سوچتے تو میرے بھا ئیو ! حکومت میں بڑی طاقت ہوتی ہے اب تاجر ہڑتالوں پر اتر آئے ہیں حالانکہ الیکشن سے پہلے انہوں نے انھیں کئی جھانسے دیئے ہونگے جو اب وہ بتا بھی نہیں سکتے عوام سے کیئے گئے وعدے انہیں بھول گئے ۔عوام کے سارے چھوٹے چھوٹے کاروباروں پر انہوں نے قبضہ کر لیا دودھ مرغی انڈے پولٹری کا سارا کاروبار حمزہ شریف کے قبضے میں ہے شہباز شریف کی اولاد بھی نواز شریف کی اولاد جتنے اثاثے بنانا چاہتی ہے ۔جب تک ابا جی زندہ تھے یہ کام سانجھا تھا۔
کئی سال پہلے بھی رائے ونڈ کسی خاندان کی ملکیت تھی جو میاں صاحب کو پسند آگئی اور اس خاندان کے شدید انکار کے باوجود ہتھیا لی گئی یا خرید لی گئی بھرحال اتنا پتہ ہے کہ ان کے شوق سے پالے جانور کلوئوں کے حساب سے بکے تھے ۔زرداری دبئی جا کر بیٹھ جاتے اور موبائل کمپنیوں کو آرڈر ملتا اتنا پیسہ ہمارے اکائونت میں جمع کرا دو ورنہ چند گھنٹوں کے لیئے موبائل بند کریں گے تو اربوں کا نقصان اٹھائو گے۔
یہی ہوتا جب کبھی وہ انکار کرتے چند گھنٹوں کے لیئے موبائل سیکورٹی کے نام پر بند کر دیئے جاتے (اب اتنا بڑا آپریشن دو سال سے کراچی میں ہو رہا ہے اب کیون نہیں موبائل بند ہوتے ؟)اللہ کے فضل سے اتنے بڑے فوجی ایونٹ بھی ہوئے ہیں پورا ملک کھلا رہا اب جبکہ مجرم تتر بتر ہو رہے ہیں ملکی معیشت سنبھل رہی ہے امن و امان کی صورت بہتر ہو رہی ہے حکومت اور اپوزیشن پہ کیوں لرزہ طاری ہے ؟کیوں مجرموں کی حمایت میں ہڑتالوں کے عندیے دیے جا رہے ہیں ؟ کیا انہیں امن گوارہ نہیں یا عوام کا سکون برا لگ رہا ہے؟۔
تحریر : مسز جمشید خاکوانی