تحریر : عقیل خان
14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا جائز یا ناجائز ہے۔ اس بحث میں پڑنا اپنا ٹائم ضائع کرنے کے مترادف ہے کیونکہ آجکل ہر بندہ اپنے آپ کو دانشور اور دوسرے کو جاہل سمجھتا ہے۔ ہر سوال کا جوا ب اس کے پاس ہوتا ہے، جیسے عدالت میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر کے لوگ اپنا لوہا منواتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ ویلنٹائن ڈے پر اس تہوار کو منا کر اپنا لوہا منواتے ہیں۔ اگر کوئی شخص، یا تجزیہ نگار اس کو اسلام کے نقطہ نظر سے بتانا شروع کردے تو بہت سے لوگ اس پر فوراًفتوے جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ پہلے ہم کونسا سارا کام اسلام کے مطابق کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو ایک دوسرے کو رشوت اور سودکھانے کا طعنہ دینا شروع کر دیتے ہیں یعنی ان کے پاس نصیحت کرنے والے منہ بند کرنے کے لیے لاکھوں الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے۔
میں ایسے لوگوں سے ایک بات ضرور کہوں گا کہ بے شک ہم اسلام کے مطابق زندگی نہیں بسرکررہے مگر ہمیں کفار کے طرززندگی کو تو نہیں اپنا نا چاہیے۔اس دن کو منانے سے پہلے اس کے متعلق آگاہی تو حاصل کرلے کہ یہ دن کیوں یا کس کی یاد میں منایا جاتا ہے ؟یا اس دن کا بیک گراؤنڈ (back ground) کیا ہے؟ اس تہوار کی حقیقت کیا ہے؟ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس کا منانا جائز ہے یا ناجائز اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ کبھی مسلمانوں نے سوچا ہے کہ ہم کن کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں؟ اس کاتاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پادری تیسری صدی عیسوی کے آخر میں رومانی بادشاہ کے زیر حکومت رہتا تھا۔ کسی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہ نے پادری کو جیل میں بند کر دیا۔
جیل میں جیل کے چوکیدار کی لڑکی سے اس کی علیک سلیک ہوگئی اور وہ اس کا عاشق بن بیٹھا یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلی۔ وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کاپھول لے کر اس کے پاس آتی تھی ۔ جب بادشاہ کو اس معاملے کا علم ہوا تو اس نے پادری کو پھانسی کا حکم دے دیا۔
پادری کو جب یہ پتا چلا تو اس نے سوچا کہ آخری لمحات اپنی معشوقہ کے ساتھ گزارے۔ چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ بھیجا جس پر لکھا تھا ”مخلص ویلنٹائن کی طرف سے” پھر اس پادری کو 14فروری کے دن پھانسی دے دی گئی۔ بس اس دن کے بعد سے یورپ میں ہر سال اس تاریخ کو لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کو کارڈبھیجنے کا رواج چل نکلا۔ آج پوری دنیا میں اس دن کو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بڑے زور و شور سے مناتے ہیں۔اس موقع پر کارڈ اور خاص طور سرخ گلاب کے پھول پیش کیے جاتے ہیں اور مختلف رنگین محفلیں سجائی جاتی ہیں۔
افسوس کہ مسلمان معاشرہ بھی اس سے بے ہودہ حرکات سے محفوظ نہ رہ سکاحالانکہ یہ ایک خالص غیر مسلم عقیدہ ہے جس میں ایک کافر نصرانی شخصیت کی یادگار منائی جاتی ہے۔اسلام میں ویلنٹائن ڈے منانا، سرخ گلاب کا پھول یا کوئی اس نوعیت سے تحفہ تحائف دینا قطعاًجائز نہیں کیونکہ مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس طرح کے بدعتی تہواروں کو منانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے اور شریعت میں اسکی کوئی اجازت نہیں۔
درحقیقت اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تاکہ مسلمان اسلام سے دور ہو جائیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ اس کی تشہیر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس دن خصوصی پروگرام دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے یہ مسلمانوں ہی کا کوئی تہوار ہے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔یہ تہوار اور یہ پروگرام انسان کی ناجائز نفسانی خواہشات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اس دن بنت حوا کی عزت سربازار نیلام ہوتی ہے۔بہت سے ہوس کے پجاری اس دن خوشیوں کے شادیانے بجاتے ہیں۔
اس حقیقت کے بعد ساری بات عیاں ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں اس طرح کے تہواروں کو پروان چڑھانا اسلامی معاشرے میں تباہی و بربادی پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ہمیں اس بارے میں بہت گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمیں اپنی اسلامی اقدار سے دور تو نہیں کیا جارہا!ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا غیر مسلم عید کا تہوار مناتے ہیں۔
عیدالفطر اور عید قرباں مناتے ہیں؟اس کا جواب یقینا نہیں میں ہو گا۔ اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم صرف اسلامی اقدار کو اپنائیں اور غیر اسلامی تہواروں کو بالکل رد کردیں۔آخر ہم مسلمان کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے ان فضول کاموں سے ہمارے مذہب کی کتنی بدنامی ہوتی ہے۔ غیر مسلم مسلمانوں کے متعلق کیسی سوچ رکھتے ہونگے۔ ہمیں چاہیے کہ ناصرف خود بلکہ دوسروں لوگوں کو بھی اس غیر مسلم حرکت سے روکیں۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com