طیبہ ضیا عرف “جھلی” فرماتی ہیں۔
گریاد ماضی عذاب ہے یارب
دلنشیں ہو تو انعام ہے یارب۔
ماضی پرستوں کا حال نہ پوچھو۔
آباد اور کبھی برباد ہیں یارب۔
حال بھی بد حال کئیے بیٹھے ہےں۔
مستقبل سے بھی نا شاد ہیں یارب
کالم نگار تجزیہ نگار صحافی حسن نثار کا شمار بھی ماضی کے بیزار عاشقوں میں ہوتا ہے۔ جھلی کو بہن کہتا ہے۔ بہن مغرب سے بیزار ہے اور بھائی مشرق سے آہ زار۔ حسن نثار نے اپنے کالم میں محترم مجید نظامی کا ذکر خیر کیا اور ہم سے حالیہ ملاقات کے دوران بھی محترم مجید نظامی کا ذکر کیا۔ حسن نثار اور ہماری شخصیت سوچ اور نظریات مشرق اور مغرب سمجھے جاتے ہیں۔ حسن نثار کومغرب کا نظام مرعوب کئیے ہوئے ہے اور ہمیں مشرق بد نظامی سمیت قبول ہے۔ وہ پاکستان کو گندے نظام کی وجہ سے گٹر سے تشبیح دیتے ہےں اور ہم اس گٹر میں بھی آسودگی تلاش کرتے ہےں۔ حسن نثار سے ملاقات کا سبب ناصر خان ہیں۔پروفیسر ناصر خان پی ٹی وی کے اینکر بھی ہےں۔ حسن نثار نے کہا کہ مجید نظامی صاحب سے نظریاتی و فکری اختلاف کے باوجود اپنی کتاب کا فلیپ ان سے لکھنے کی گزارش کی۔ مجید نظامی نے اس خواہش پر حیرانی کا اظہار کیا تو حسن نثار نے کہا کہ انہیں خوشامدانہ روائتی تحریر نہےں چاہئے۔ آپ جو لکھیں گے سچ اور حقیقت پر مبنی ہو گا۔حسن نثار کو بھی ماضی پرستی کا عارضہ لاحق ہے۔ہم ماضی کے دریچوں میں کھو گئے۔ حسن نثار کا آئیڈیل ان کے والد ہیں اور ہمارا مرشد بھی ہمارے والد ہیں۔ حسن نصرت فتح کے سنگ لائلپور کی گلیوں میں گھومتے رہے اور ہم داتا کی نگری میں خود کو ڈھونڈتے رہے۔ماضی پرستی کے مرض میں مبتلا لوگ دنیا میں جہاں چلے جایئں ، جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا، کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ ماضی آسیب کی طرح پیچھا کرتا ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے پوری قوم کا یہی حال ہے۔ اسی لئیے اس قوم کا حال بدحال ہے اور مستقبل ایسا ہے جو نظر نہیں آرہا۔ جب حال خراب ہو اور مستقبل نظر آنا بند ہوجائے تو آدمی مجبوراً ا±لٹے پاو¿ں ماضی کی طرف لوٹتا ہے۔ اس لئے کہ اسے کسی نہ کسی دور میں تو جینا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے اکثر اصحاب خود اپنے کارناموں کے حوالے سے اپنا ذکر نہیں کرتے بلکہ اسلاف کے کارناموں کو یاد کرکے دن گزارتے ہیں۔
ہم ماضی پرست لوگ ہیں اسی لئے ہم کسی چیز کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ دنیا کی دیگر اقوام اپنا فرنیچر، اپنے ریفریجریٹر، اے سی، ٹی وی، وی سی آر، مائیکرویو اوون اور ضرورت کی دیگر الیکٹرانک اورذاتی استعمال کی اشیاءتبدیل کرتے رہتے ہیں۔ پرانا سامان باہر بر لب سڑک چھوڑ دیتے ہیں اور نیا سامان خرید کر گھر اور آفس کی زینت بناتے ہیں مگر ہم ہر چیز سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ہر ناکارہ چیز کی مرمت کراتے رہتے ہیں کسی دوسرے مستحق انسان کے لئے نہیں چھوڑتے کیونکہ ہم ماضی پرست ہیں اور اپنے ماضی کویاد کرکے ماضی پرست ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ایک وقت آئے گا لوگ کہیں گے زرداری کا دور سنہرا دور تھا۔مشرف کے دور کو یاد کیا جانے لگا ہے۔بچپن میں والدین ڈکٹیٹر معلوم ہوتے تھے۔اپنی مرضی چلاتے تھے۔ بچے والدین کے بنائے اصول و قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو جاتے تو انہیں سزا دی جاتی تھی۔لیکن وہی بچے بڑھاپے کی سیڑھی کے پہلے زینہ پر ماضی کی یادوں میں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ بچپن کا زمانہ عمر کا بہترین حصہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ باپ کی سختی ماں کی ڈانٹ ، بات بات پر پابندیاں ، اب سب خوش نما معلوم ہوتاہے۔حسن نثار کہتے ہیں کہ کروڑوں کی دولت ایک طرف ابا جی کے دیئے جیب خرچ کی وہ اٹھنی ایک طرف۔انہیں وہ اٹھنی یاد آتی ہے۔اور ہمیں ابا جی کاشیروانی کی جیب سے پیسے نکال کر دینے کا وہ منظر نہیں بھولتا۔ نشہ کئی قسم کا ہوتاہے اور سب سے ظالم نشہ انسانوں سے محبت کا نشہ ہے۔ اذیت ناک نشہ ہے۔جن لوگوں سے محبت ہو جائے اور وہ اچانک چھوڑ جائیں ، روٹھ جائیں، جدا ہو جائیں، بچھڑ جائیں، جان لے لیتا ہے۔ اذیت سے نجات کے لئیے کچھ لوگ نشہ آور اشیاءکا سہارا لیتے ہیں اور کچھ غم کو طاقت بنا لیتے ہیں۔ عارضی سہارے تلاش کئیے جاتے ہےں جبکہ مستقل سہارہ روحانیت ہے۔ روحانیت کا اندازہ ازیت ناک لمحات میں ہوتا ہے کہ روحانی طاقت سے زیادہ موثر کوئی نشہ نہیں۔ ہمیں شاعری کا زعم نہیں لیکن لبوں پر اکثر پھڑ پھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ فطرت کی مٹی سے بنایا گیا ہوں ،نفس کی چکی میں پیسا گیا ہوں ، لاکھ مجاہدے کئیے ہیں لیکن ، ہر خواہش پہ آزمایا گیا ہوں ، بشر ہوں میں بھی یہ بھول گیا تھا ، فرشتہ سمجھ کر ستایا گیا ہوں ۔