تحریر: ابوبکر شاہد خان
روزگار کا معاملہ کسی بھی انسان کیلئے اس کی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور موجود ہ دور میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا کسی بھی عام گھرانے کے نوجوان کیلئے مشکل ہی نہیں مشکل ترین ہوتا جارہا ہے بہر حال چند خاص گھرانے تو دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی انفرادی حیثیت حاصل رکھتے ہیں جن کا لوہا سونے کے باؤ بکتا ہو ان کی اولادیں بچپن میں کروڑوں اربوں کے کاروبار کے مالک بن جاتے ہیں اور کسی میں جرات نہیں پائی جاتی کہ ان سے پوچھ سکے کہ اتنی دولت کہاں سے اور کیسے آئی۔۔۔۔؟ وطن عزیز کے ایسے خاندانوں کی مثالیں سب کے سامنے ہیں جو ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ ڈالتے ہوئے اربوں کھربوں کے مالک بنے ملکی خزانہ لوٹ کر کالے دھن کی صورت میں بیرون ملک منتقل کیا گیا اور پھر راز افشاء ہونے پر بھی درپردہ ایک دوسرے کے حامی بن گئے ہیں تاکہ ان کے کاروبار متاثر نہ ہوں ان کے عزائم متاثر نہ ہوں ان کی اولادوں کا آئندہ اقتدار میں آنے کا سلسلہ بند نہ ہو کہ اگرایسا ہوگیا تو دولت کے ذاتی انبار لگانے کا سلسلہ رک جائے گا ۔۔ پانامہ لیکس میں سامنے آنے والے ناموں میں ہمارے ملک کے عوامی خادموں اور ان کی اولادوں کے نام جب سے سامنے آئے ہیں تو پاکستان کے نوجوان یہ بات سمجھنے میں بلاشبہ حق بجانب ہیں کہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کا حق دبانے والے عام آدمی کے معاشی حالات کو ابتر بنانے کے ذمہ دار ہیں بے روزگاری کے عفریت نے جبڑے کھول کر عام آدمی کو نوچنا شروع کررکھا ہے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا اصل سبب جو سامنے آرہا ہے وہ معاشی عدم توازن اور نوجوانوں کو ان کے معاشی حق سے محروم کرناہے ۔جب ملک کا سرمایہ ملک میں نہیں رہے گا تو ظاہری سی بات ہے کہ یہاں روزگار کے مواقع محدود ہوں گے اور پھر معاشی قحط کی موجودگی میں ترقی کی باتیں چہ معنی دارد؟ ۔ وطن عزیز کے چند حکمران خاندانوں کی بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں ہمارے ہاں شعور کی بالیدگی جیسا معاملہ نہیں ورنہ ان جیسے لیڈر ایک بار کی ناکامی اور کرپشن سامنے آنے کے کبھی دوسری اور تیسری مرتبہ اقتدار میں نہ آتے ۔ قومی المیہ یہ کہ ہمارے ہاں لوگ بس باپ دادا کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس کے باپ دادا نے گیدڑ کو ووٹ دیا اس نے گیدڑ کو ہی اپنارہبر ،رہنمامانا جس نے کسی اور جانور کی حمایت کی اس کی اولاد اسی جانور کی پیروکار ہوگئی شعور کی بالیدگی آتی بھی کیسے کہ اس کا انحصار تعلیم پر ہوتا ہے اور تعلیم کا معاملہ ایسا ہے جس کیلئے وطن عزیز میں کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی آج بھی ہزاروں سکول کالج بنیادی سہولتوں حتی کہ چھت کے آسرے تک سے محروم ہیں ہمیں ہمیشہ بتایا گیا ہے کہ ملک میں اگر کسی چیز کو خطرہ ہے تو اس مقدس چیز کا نام جمہوریت ہے۔باقی ہرچیز خطروں سے پاک دہشت گردی بدامنی جیسے معاملات میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جانیں چلی جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا جہالت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے بس جمہوریت کو کچھ نہیں ہونا چاہیئے جمہوریت وہ مقدس گائے ہے جس کی پوجا کادرس، تبلیغ کا سلسلہ صبح دوپہر شام رات ہر لمحہ ہوتا ہے۔آپ عام آدمی ہیں تو آپ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں انصاف کی فراہمی جیسے معاملات میں بھی دہرا معیار ہے تونام نہاد جمہوریت کا رویہ باور کرواتا ہے کہ روزگار کے معاملہ میں بھی آپ کو کسی سیاسی پیشوا کے تلوے چاٹنا اپنا مشغلہ بنانا ہوگا ورنہ آپ یا آپ کی اولاد کا کسی حکومتی ادارے میں روزگار کا سلسلہ نہیں چل سکتا۔ جس ملک میں سیاستدانوں کو اپنے اقتدار کیلئے بغیر پڑھے لکھے ڈگریاں دستیاب ہوں کیا اس کی اولاد کو روزگار کیلئے این ٹی ایس اور دیگر ایسے ہی ٹیسٹوں کے پیپرز اور ان پیپرز میں رہنمائی قبل از وقت میسر نہیں آسکتے مگر کیا ہے کہ عام آدمی کو سسٹم میں شامل ہونے سے روکنے کیلئے ان چیزوں کا سہارا لیا گیا ہے این ٹی ایس جیسے ٹیسٹوں کی بات کی جائے توہمارے تعلیمی ادارے ہمیشہ سے غیر نصابی سرگرمیوں کو موضوع بحث نہیں بناتے لکیر کے فقیر سرکاری تعلیمی اداروں کے معلم اپنے دستیاب علم کے مطابق غریب جموروں کو تعلیم دیتے ہیں جب غریب کا بچہ اپنی خاندانی جمع پونجی صرف کرکے ڈگری حاصل کرہی لیتا ہے تو این ٹی ایس جیسے ٹیسٹوں کی آڑ میں اسے سسٹم کا حصہ بننے سے روک دیا جاتا ہے اور این ٹی ایس ٹیسٹم جیسا حربہ ہی نفسیاتی طور پر حق کے حصول کی آوازدبانے کیلئے کارگر ہے۔ غریب نوجوان جب این ٹی ایس جیسے ٹیسٹ میں شامل ہوتا ہے تو وہ پوچھے گئے بے تکے سوالات منی کیوں بدنام ہوئی؟ منی کی بدنامی میں کس کس کا ہاتھ تھا؟ اس بدنامی سے کس کس کو فائدہ ہوا؟ شیلا کی جوانی کے سائیڈ ایفیکٹس کیا ہیں؟ شیلا کا تعلق کس گھرانے سے تھا وغیرہ وغیرہ کا جواب نہیں دے پاتا تو وہ این ٹی ایس جیسے ٹیسٹوں میں شامل ہوکر کمرہ امتحان سے باہر نکلتے ہی یہ ذہن بنا لیتا ہے کہ اس کے پاس اسٹینڈرڈ کی تعلیم نہیں اس لئے وہ مشتہر کی گئی کسی پوسٹ کا حقدار نہیں۔ ملک میں انصاف کی فراہمی اور آئین کی نظر میں سب کی برابری کی باتیں کرنے والوں سے کوئی پوچھے جب ملک میں عام اور خواص کیلئے بہتر ماحول میںیکساں تعلیم کے حصول کے مواقع ہی فراہم نہیں تو ایسے نام نہاد قابلیت ماپنے کے ٹیسٹوں میں غریب اور امیر کے بچوں کیلئے ایک طرح کا سلوک کس لئے ؟ جبکہ امیروں یا اشرافیہ کیلئے ملک میں ڈگریاں خریدنے جیسے معاملات سب کے سامنے ہیں ان ٹیسٹوں کی کیا حیثیت!۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ملک میں اعلیٰ ترین پوسٹوں پر کسی سیاستدان/بیوروکریٹ افسران /ججز /بڑے مالدار خاندانوں کی اولادیں یا عزیز واقارب ہی تعینات ہیں جبکہ باقی ادنیٰ پوسٹوں پر ان کے چیلوں یا کم پڑھے لکھے رشتے داروں کی فوجیں بھرتی ہیں رہا عام آدمی تو اس کیلئے روزگار کے مواقع ہر روز کم ہو کر ختم ہورہے ہیں۔اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئیے کہ ریاست اپنے جوانوں کے روزگار کا بلا تفریق بندوبست کرے ہر تعلیم یافتہ شخص کو اس کی تعلیم کے مطابق نوکریاں دی جائیں روزگار کا بندوبست کیا جائے اور اگر عام اور خواص کو یکساں سہولیات دینا ریاست کیلئے ممکن نہیں تو غریبوں کو نوکریوں، روزگار کے ترجیحاََ مواقع دینے چاہییں این ٹی ایس جیسے ٹیسٹوں میں سرکاری سکولوں یا انفرادی حیثیت میں پرائیویٹ رہ کر امتحان پاس کرنے والے ڈگری ہولڈروں کومناسب رعایت دی جائے تا کہ اشرافیہ یا خواص کے معیار کے تناسب سے غریبوں کو بھی آگے آنے کا موقعہ مل سکے اگر ایسا نہیں تو یاد رکھئے گا ۔حضرت علیؓ کا قول زریں ہے کہ ’’کفر پر معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم و ناانصافی پر نہیں‘‘۔ وہ معاشرہ جہاں یکساں سہولیات اوربلاتاخیر انصاف تمام افراد/ معاشرہ کی دسترس میں نہ ہو، جس معاشرے میں طبقاتی تقسیم پر قانون کا زور چلتا ہو وہاں تمام معاشرتی/اخلاقی برائیاں نہ صرف جنم لیتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ اس حد کو پہنچتی ہیں کہ پورا معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ وطن عزیز میں کروڑوں غریب /سفید پوش طبقات کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اشرافیہ کی اوقات کو پہچانتے ہوئے اپنے حقوق کے حصول کیلئے باہم متحد ہوں ورنہ ان کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔