تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
اِس سال بھی 14 فروری 2015 کو جب میری قوم کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے باعزت والدین اور غیرت مند بھائیوں کو چکمہ دے کر اغیارخبیث St.Valantine کی تقلید کرتے ہوئے نامحروموں کے ساتھ محبت کے نام پر پارکوں، ریسٹورانٹس اور گلی محلوں میں گھوم پھرکر باہوں میں باہیں ڈالے لمحات گزار کر پھولوں کے تحفے دے اور لے کر ویلنٹائن ڈے منارہے ہیں تو ایسے میں مجھے اپناوہ گُلفروش دوست وجیہہ الحسن شدت سے یاد آگیا ہے جودو سال قبل اچانک ہی اِسی دن انتقال کر گیا تھااورجس کی تدفین اگلے روز 15 فروری کو مقامی قبرستان میں عمل میں لائی گئی تھی، میں جانتاہوں کہ وجیہہ الحسن نے ہمیشہ نوکری کو غلامی سمجھا وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا مگر اِس نے یہ کبھی بھی نہیں سوچاتھا کہ وہ ”وجیہہ الحسن سے وجیہہ الحسن گلفروش بن جائے گا
لوگ اِسے وجیہہ الحسن گلفروش کے نام سے جاننے اور پہنچاننے لگیں گے اِس کی کبھی بھی یہ خواہش نہ تھی کہ وہ اپنے اَبّاکاہی چھوڑاہوا گُلفروشی کا کاروبار کرے گا وہ تو کوئی اور کاروبار کرنا چاہتا تھا مگرمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اِس نے گلفروشی کا کاروبار اپنی ہی ہٹ دھرمی ونالائقی اور ضدکی وجہ سے ہی چُن لیا تھاچونکہ اَب وہ اِس کے علاوہ کوئی اورکام کربھی نہیں سکتا تھا ۔وہ اِس کاروبار کوکرنے پر کیوں مجبورہوا..؟اِس کی ایک بڑی لمبی داستان ہے اگریہاں میں اِسے بیان کرنے بیٹھ گیاتو میں اپنے مُدّعاسے کہیں کا کہیں نکل جاو ¿ں گابس سمجھانے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اِس نے اِس لئے گلفروشی کا کاروبار شروع کیاتھا جب اِس کے اَبّا حیات تھے
وہ اپنی بیماری کے باعث دُکان پر نہ آسکے تو تب اِس کے اَبّا نے اِسے دُکان پربیٹھنے کو کہاتھاپہلے تو اِس نے انکارکیا مگرجب اَبّاکا اصراربڑھاتو یہ دل پر پتھررکھ کا آخرکارایک روزدُکان پر بیٹھ ہی گیاویسے تو دُکان پر کاریگر بہت تھے ساراکام تو اُنہیں ہی کرناتھا اِسے تو بس گّلے پرہی بیٹھناتھا ایک دو روز تو اِسے عجیب سالگا مگر تیسرے روزاِس کا دل دُکان پر ایسے لگاکہ پھر یہ آخری دم تک دُکان کا اور دُکان اِس کی جان سے چمٹی رہی وجہ اِس کی یہ تھی کہ جس روزسے اِس کا دُکان پر دل لگ گیا تھاوہ ویلنٹائن ڈے تھا
اِس روزصبح سے رات گئے تک لڑکے اور لڑکیاں اِس کی دُکان سے پھول اور پھولوں کے نبے دوسرے سستے اور مہنگے داموں گلدستے خریدتے رہے اِسے دُکان داری میں بڑامزہ آیا..مزہ جو آیا سوآیا.. اِس کے مزے کی ایک خاص وجہ وہ لڑکیاں تھیں جو اِس کی خُوبصورتی کی تعریفیں اپنی نظروں سے کرکے جارہی تھیں یہ ساری باتیں مجھے وجیہہ الحسن نے خودبتائیں تھیں۔
اَب معمول کے مطابق روز صبح دُکان کھولنا اور رات گئے بندکرنا اِس کی ذمہ داری ہوگئی تھی، اِس نے اَباکوآرام کا کہہ کر گھر تک ہی کردیاتھاابھی ایک ویلنٹائن ڈے گزراہی تھا کہ اگلے ویلنٹائن ڈے کے آنے تک گئی خُوبصورت لڑکیاں اِس پر عاشق ہوکر مرمٹی تھیں خواہ وہ اِسکول کی لڑکیاں ہوں کالجز یا جامعات کی بس ہر لڑکی کی خواہش یہ تھی کہ کسی بھی طرح وہ اِس کا بن جائے لڑکیوں کے چکرمیں پڑکروجیہہ الحسن نے اپنی پڑھائی کا ساراوقت دُکان پر دینا شروع کر دیا تھا اَب پڑھائی وڑاہی سب غرق ہوگئی تھی۔
با ت مختصریہ کہ وہ ایک اپنے سے زیادہ مالدارلڑ کی کی محبت کے جھانسے میں آگیا تھااورپھر چندہی دِنوں میں اِس سے اُس کی شادی ہوگئی تھی، اِس کی شادی میں، میں بھی اِس کے سگے بھائیوں کی طرح شامل ہواتھا،پہلی لڑکی کی پیدائش کے بعد دونوں میاں بیوی کی بس ایک خواہش یہ تھی کہ اِن کا ایک بیٹاہوجائے اِس چکر میں لگاتار اُوپر نیچے چاربیٹاں ہوگئیں تھیںاور ہر بیٹی دوسرے سے خُوبصورت تھی، اولادتو سب ہی کو پیاری ہوتیں ہیں خواہ ساری بیٹاں ہوں یا سارے ہی بیٹے ہوں مگر بس سب کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہی ہوں تو ساری خواہش پوری ہوجاتی ہے،وجیہہ الحسن اور بھابھی نزہت نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کی طرح پلاتھا اِنہیں اچھی تعلیم تو دلوائی تھی مگرشایددونوں میاں بیوی اپنی بیٹیوں کی کچھ اچھی تربیت نہ کرسکے تھے آج اگر وہ اِن کی اچھی تربیت کرتے تو ہوسکتاہے
وہ ابھی زندہ رہتا…!کیوں کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی لمبی عمر کی ایک وجہ نیک اور صالح اولاد کاہونا بھی ہے اور جن کی اولادبے راہ روی میں پڑجاتی ہے وہ میرے دوست وجیہہ الحسن کی طرح جلددنیائے فانی سے منہ موڑکر کوچ کرجاتے ہیں ۔
بہرحال …!وجیہہ الحسن کا جس صدمے سے انتقال ہوااِس کی بڑی وجہ ویلنٹائن ڈے اور اِس کی دُکان کے ہی وہ پھول اور گلدستے تھے جو اِس نے پچھلے سال 14 فروری 2013 کو اپنی دُکان سے ویلنٹائن ڈے کے موققے پر نوجوان لڑکوں کو صبح سے شام تک فروخت کئے تھے مجھے یہ بات اِس کے انتقا ل کے چار روز گزر جانے کے بعداِس کے ایک انتہائی قریبی رشتے داراور اِس کے ایک سکے ماموں کی زبانی معلوم ہوئی تھی اِس پر وجیہہ الحسن کے وہ الفاظ یا د آگئے جو اِس نے اپنی موت سے سات دن پہلے مجھ سے کیں تھیں اِس نے بڑے فخر سے مجھے بتایا تھاکہ وہ اِس مرتبہ ویلنٹائن ڈے پر زیادہ رقم لگائے گا، اور اِس مرتبہ ویلنٹائن ڈے پر دیسی اور انگلش پھولوں کی ایسی ورائٹیاں متعارف کرائے گاکہ یہ سارے شہر ہی کیا بلکہ پورے مُلک میں یہ اِس کی پہنچان بن جائیں گیں اور یہی پھول اور گلدستے اِس دن اِس کا اشتہارہوں گے حقیقت ہے کہ اِس نے جیساسوچااُسے اُس ہی رنگ میں پیش بھی کیا اِس کی پھولوں کے گلدستے کی ورائٹی سے خوداِس کی بیوی اور بچیاں بھی واقف نہیں تھیں کہ وجیہہ الحسن نے اِس ویلنٹائن ڈے پر پھولوں اور گلدستوں کی ورائیٹیز کے حوالے سے کیا پلاننگ کررکھیں ہیں۔
مجھے یاد ہے میری ملاقات وجیہہ الحسن سے بیس سال قبل اُس وقت ہوئی جب وہ اور میں کراچی میں ائیرپورٹ کے قریب واقع علامہ اقبال کالج میں شام کی کلاسوں میں بی کام فرسٹ ائیر کے طالبعلم تھے اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کلاس کاہی نہیں بلکہ کالج کا بھی سب سے ذہن اور اسمارٹ طالبعلم تھا،اِسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے قدرت نے ساری ذہانت اور خوبصورتی اِس ہی میں کوٹ کوٹ کر بھردی ہے،وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولادتھا اِس کے اَبّاکی شہر کی مشہورپھولوں کی مارکیٹ میں ایک بڑی پھولوں کی دُکان تھی، اوراِس کے اَبّا مارکیٹ میں تاجر برادری کی انجمن کے صدربھی تھے،اور اِس حوالے سے یہ اپنا اچھا اثرو رسوخ رکھتے تھے، اِنہیں اپنے اَبّاکی چھوڑی ہوئی جائیداد سے بہت کچھ ملاتھایوں اِن کے پاس دولت تو بہت تھی ، یہ اگر پھولوں کی مارکیٹ میں پھول کی دُکان نہ بھی کھلتے تو اِن کا زندگی بھر اچھاگزربسر ہوسکتا تھا
مگر مارکیٹ میں پھولوں کی دُکان تواُنہوں نے بس یوں ہی کھل لی تھی تاکہ اِن کا دل لگارہے اور اِن کی پھولوں سے شخف بھی جاری رہے۔اِنہیںپھولوں کی دُکان سے جتنی بھی آمدنی حاصل ہوتی وہ سب کی سب اپنے بیٹے وجیہہ الحسن کی اچھی تعلیم و تربیت پر خرچ کردیتے ،بیٹاجوتھااِس ہی لئے تو اِس کے والدین نے اِس کے نازاُٹھائے وہ تو بس اِسے ایک قابل اِنسان بناناچاہتے تھے ، اِنہیں یقین تھاکہ اِن کا اکلوتابیٹامقابلے کے امتحان میں کامیاب ہوکراعلیٰ افسر بنے گا۔ مگر والدین کے بیجا لاڈ نے تواِسے نخرالواور ضدی بنا دیا تھا وجیہہ الحسن اپنے والدین سے اپنی مرضی کی ہر بات اپنی ضدسے بنوالیا کرتا تھا چونکہ وہ ضدی تھا اِس لئے اِس کے والدین اِس کے سامنے بے بس ہوجاتے اور اِس کی ہر اُلٹی سیدھی خواہش تُرنت پوری کرتے اِس کی اِسی عادت نے اِسے بکاڑدیاتھابھابھی نزہت سے شادی کے لئے بھی اِس نے ضدکی تھی اوراِن سے شادی نہ ہونے کی صورت میں خودکشی کی بھی دہمکیاں دی تھی۔
اِس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ بعض اوقات قدرت بھی کچھ فیصلے فوراََ دنیاہی میں کردیاکرتی ہے وجیہہ الحسن کے ساتھ بھی قانونِ قدرت نے ایساہی کچھ کیاچونکہ یہ مکافاتِ عمل تھااِ س کایقینا کرلیناچاہئے کہ قدرت جو کرتی ہے وہ ٹھیک ہوتا ہے، ہمیں قدرت کے فیصلوں پر بولنااور قیاس آرائیاں کرکے خود کو گناہ گار نہیں کرنا چاہئے ۔پچھلے سال 14 فروری 2013 کو ویلنٹائن ڈے پر لاکھوں کے پھول فروخت کرنے والے گلفروش وجیہہ الحسن کے ساتھ جو ہواایساتو اِس کے ساتھ ہونا ہی تھاکیوں کہ جب ہم ویلنٹائن ڈے پر اپنے کاروبار کو چمکانے اور ذراسے منافع کے خاطر دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لئے پھول فروخت کرکے معاشرے کے نامحرموں کو محبت اور اُلفت کی آڑ میں فحاشی پھیلانے کا موقع فراہم کریں گے تو ہمارے گھر کی بہن بیٹیاں بھی بھلا کیسے کسی نامحرم کی نظرسے محفوظ رہ سکتی ہیں…؟
وجیہہ الحسن کے ساتھ بھی ایساہی ہواگزشتہ سال جب یہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر صبح سے رات گئے تک نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے بنے ہوئے گلدستے فروخت کرکے خُوب منافع کماکر ہنسی خوشی گھرلوٹاتو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ اِس کی دُکان کے بنائے گئے بے شمار گلدستے اِس کے اپنے گھرپر اِس کے آنے سے پہلے ہی موجودتھے،اور اِس کی چاربیٹیوں میںسے دوبیٹیاںگھرمیں موجودنہیں تھیںجب اِس نے اِن معاملات کا اپنی بیوی نزہت سے اِستِفسارکیا تواِس کا بس ایک ٹکاساجواب یہ تھا…کہ میں نے بھی تو تمہارے دل کے دروازے پر اِسی ویلنٹائن ڈے پر دستک دی تھی اور میں بھی توتمہارزندگی میں دن آئی تھی ،اور آج تم کونسی عبادت کرکے آرہے ہوں…؟
مسٹروجیہہ الحسن صاحب ..!سارادن تم قوم کے لڑکے اور لڑکیوں کو ویلنٹائن ڈے پر محبتوں کے نام پربے حیائی کو پروان چڑھانے کے لئے گلدستے توفروخت کرتے رہے ہو…؟آج جب تمہاری شہزادی جیسی حسین و جمیل بیٹیاںاِسی ویلنٹائن ڈے پر نامحرموں سے گلاستے لے آئیں ہیں اوراِن کے ساتھ رنگ ریلیاں منانے نکلی ہوئیں ہیںتومسٹروجیہہ الحسن تمہاری غیرت کو جوش آرہاہے… تب تمہاری غیرت کہاں مرگئی تھی جب تم دن بھر قوم کی بہن اور بیٹیوں کے لئے نامحرم مردوں اور لڑکوں کو گلدستے بیچ رہے تھے…؟اِس کی بیوی نزہت کے منہ میں جوآتاجارہاتھاوہ کہئے جارہی تھی… اور میرادوست وجیہہ الحسن خاموشی سے اِس کی سُنے جارہاتھا وہ حیران تھا کہ آج بیس سال بعد اِس کی بیوی نے اپنی اصلیت دکھادی تھی اِس کی باتوں کا اِسے بہت صدمہ ہوااور وہ سینے پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ زمین پر آتاجارہاتھااور پھر یکدم سے وہ زمین پر آگرااور ایساگراکہ اِسے وہ رات اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی موت کی وادی میں دھکیل کر قبر کی آغوش میں جانے کا اعلان کرچکی تھی، اِس کا دل کا دورہ اتناشدیدتھاکہ وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کرگیا تھا۔
آج 15فروری 2015ہے اور میرے دوست کو دنیا سے رخصت ہوئے دو سال ہوگئے ہیں میں اِس کی قبر پر اِس کے ہی دُکان کے پھول ڈالنے کے بعد فاتحہ پڑھ کر قبرستان سے واپس نکل رہاہوں تو میرے سامنے تین اور جنازے قبرستان میں آرہے ہیں ، شاید اِن میں سے بھی کوئی ایک یادویا شاید تین کے تینوں جنازے کسی غیرت مندباپ ، بھائی یا ماں کے ہوں جن کی بہن یا بیٹی نے 14فروری 2015 کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے پر ایساہی کوئی گُل کِھلایا ہواور وہ بھی اِسے گلفروش وجیہہ الحسن کی طرح برداشت نہ کرسکے ہوں اور دنیائے فانی سے منہ موڑکر رخصت ہوگئے ہوں یہ ایک المیہ ہے ہمارے معاشرے کے اُن والدین کے لئے جن کی لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل اولادیں ہیں و ہ اپنی اپنی اولادوں پر کڑی نظررکھیں صرف اچھی تعلیم دلادینے سے ہی وہ یہ نہ سمجھیں کہ اُنہوں نے اپنی اولادوں کومعاشرے کا اچھااِنسان بنادیا ہے بلکہ والدین کو چاہئے کہ وہ اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی اولادوں کی اچھی تربیت بھی کریں اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے
جب باپ صرف کماکردینے کی ذمہ داریوں سے نکل کر اپنی اولادوں کی تربیت کی بھی فکرکریں اور اسی طرح میری قوم کی مائیں اپنے شوہروں کی کمائی کو بیجاخر چ کرنے کے بجائے اپنی اولادوں بیٹیوں اور بیٹوں کی اچھی تربیت کے لئے اپنا کردار اداکریں کیوں کہ اماں کی گود ہی اِس کی اولاد کی پہلی درس گاہ ہے۔اور اِسی طرح میرے مُلک کے گلفروش بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی یہ تہیہ کرلیں کہ اگلے سال جب 14 فروری 2016 کوساری دنیاسمیت پاکستان میں بھی آزاد خیال اور ہمارا(لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل )نوجوان طبقہ ویلنٹائن ڈے منانے کی تیاریاں کررہاہوتو اُس روز میرے مُلک کی ساری گُلفروش منڈیاں معاشرے کو بے حیائی اور غیر اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانے سے بچانے کے لئے احتجاجاََ بند رکھی جائیںاِس سے قوم کے نوجوانوں پر مثبت تاثر جائے گااور قوم کے نوجوان بے حیائی اور گمراہی سے بچ جائیں گے اور پھر کسی باپ ، ماں اور بھائی کی قبر15فروری 2016کو یوں نہ بن پائے گی جس طرح 15 فروری 2013 کو گلفروش وجیہہ الحسن کی بنی تھی مجھے آج تک اپنے گلفروش دوست وجیہہ الحسن کے یوں مرنے کا یقین نہیں آرہاہے۔
تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com