تحریر : عینی نیازی
ان دنوں پاکستانی فلم انڈسٹری میں زندگی رواں دواں نظر آتی ہے پرانے اورنئے فلم سازپاکستانی نت نئی فلموں کے ساتھ پردہ اسکرین پرجلوہ گرہیں نئے تجربات،نئی کہانیاں منظرعام پردکھائی دے رہی ہیں کہیں داد دی جا رہی ہے توکہیں ناکام فلم بین اپنے تجربے سے کچھ سیکھ رہے ہیں لیکن مایوس نہیں ہیں کیونکہ سب ہی کو یقین ہے کہ آنے والے کل پا کستان فلم انڈسٹری کو ایک نئی تابنا ک انڈسٹری ضرورنصیب ہو گی ان نت نئے تجربوں میں ایک ادبی وکلاسیکی فلم بھی پردہ سمیں پرپیش کی گئی ہے جس کا نام ٌٌ ماہ میر ،، ہے جواردو کے بڑے شاعرمیر تقی میر کے عشق و جنون کی داستان پر فلما ئی گئی ہے اب سے چند سال قبل تک کو ئی تصور ہی نہیں کر سکتا تھا کہ پا کستان مین کو ئی ادبی و کلا سیکی موسیقی کے ساتھ فلم بنا ئی جا سکتی ہے اورسب سے بڑھ کر وہ اتنی پذیرا ئی بھی حا صل کر ئے گی لیکن اب حا لات بدل چکے ہیں فلم بین کا فی با شعور ہو چکے ہیں سو اس تجربے سے بہت سے فلم سازبہرہ ورہوں گے اور نت نئے تجربے آزمائے جا ئیں گے
ماہ میر کے فلم سازسا حررشید اور خرم رانا نے دلیرانہ سرما یہ کاری کی مثال قا ئم کی ہے پاکستان میں بننے والی موجودہ فلموں سے یکسرمنفرد اورجداموضوع کا انتخاب کیا فلم کے کہانی نویس ‘ سرمد صہبائی ‘ ہیں جنھوں نے اردو ادب کی زبان کو فلم میں بطور مکالمہ خوصورت انداز سے پیش کیا ہے یہ الفاظ ہمارے بہت سے دیکھنے والوں کے لئے نئے ہوں گے لیکن جس زمانے کو دکھانا مقصود تھا وہاں اسی ا لب ولہجے کی ضرورت تھی جسے سرمد صہبائی نے بہت احسن طر یقے سے نبھا یا ہے پوری فلم میں سرمد صہبا ئی کی محنت چھائی رہی گوماہ میر میں انگریزی سب ٹائٹل اور فارسی کلام بھی شامل کیے گئے ہیں ہدایت کار انجم شہزاد نے ایک شاعر کی زندگی میں اس کی شاعر ی میں چاند کی پرسرار رومانس ، لہروں کے اضطراب شاعر کے اندر کی گہری تنہانئ ا س کے اندر کی بے کلی وبے چینی جو اسے شاعری پر اکساتی ہے وہ سب کچھ انجم شہزاد نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے والوں کا آشنا کروانے کی بھر پور کو شش کی ہے
میر تقی میر کی محبت میں وحشت و جنون کی عکاسی جمال (فہد مصطفیٰ ) نے پورے طریقے سے اداکاری میں پیش کر کے اپنے آپ کو منوانے کی کو شش کی ہے اور اس میں وہ خا صے کا میاب بھی نظر آتے ہیں فلم کے اہم کردار ڈا کٹر کلیم (منظر صہبائی) ہیں جو اردو ادب کے استاد ہیں میر کے وحشت عشق کو جمال تک پہنچاتے ہیں انھوں نے اپنے کردار سے پورا انصاف کیا ہے ان کا لب ولہجہ ماہ میر کے تمام کرداروں پرحاوی رہا وہ یقینا داد کے مستحق ہیں ایمان علی (مہتاب بیگم )نے عہد میر کی ایک طوائف اورموجودہ دور میں جمال کی محبوبہ اورکلاسیکی شاعری کی دلداہ لڑکی کا کردار بخوبی ادا کیا ہے ان کے حسن نے فلم میں چار چاند لگا دئے علی خان نواب کے کردار میں نواب نظرآئے نئی شاعرہ کے طورپرصنم سعید نے اپنا کردارنبھا یا اس کے علاوہ ہما نواب اور دیگر اداکاروں نے بھی اس فلم میں اپنی اداکاری سے انصاف کی کوشش کی۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ادب اور شاعر کی زندگی پر فلم بنے اور اس کی موسیقی دلوں کو نہ چھو سکے جی ہاں فلم کی موسیقی بہت اعلیٰ ہے اور گانے بھی بہت ہی عمدہ طریقے سے فلمائےگئے ہیں شاہی حسن، احمد جہانزیب اور شفقت امانت علی نے بہترین موسیقی پیش کی ہے منٹو کے بعد اس فلم کو دیکھ کرہمیں توبہت سی اچھی توقعات وابستہ ہوچکی ہیں اب یہ دیکھنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ کس نظریےسےفلم کوداد دیتےہیں ۔ یہ بات تو طے ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے عشق نہیں ، بھرپور عشق کیا تھا یہی بات پوری فلم کی کہانی کا بیس ہے ۔اگر تنقیدی نقطہ نگاہ سے دیکھا جا ئے تو یقینا کچھ خا میاں بھی ہیں لیکن یہ ایک بڑارسک بھی تھا کہ ہما رے ہاں ادبی فلم کی پذیرائی ہواس کے لئے یقینا ماہ میر کی ٹیم داد کی مستحق ہے جس نے اتنا بڑا جوکھم اٹھایا اسی طرح اگر جنون اورعشق سے فلمیں بنتی رہیں گی تو ایک دن ہم پا کستان کی فلم انڈسٹری کو بھی دنیا کی بڑی انڈسٹری میں شمار کر سکیں گے۔
میر تقی میر، آگرہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام علی متقی تھادرویش گوشہ نشین تھےمیر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی مگر مزید تعلیم سے پہلے جب میر ابھی نو برس کے تھے وہ چل بسے تب ان کے بعد ان کے والد نے خود تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتداء ہوئی۔ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں، کچھ غم جاناں سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف تنگدستی و مشکلات برداشت کرنے کے بعد بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ اور سفر کی صعوبتوں کے بعد لکھنو پہنچے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87 سال کی عمر پا کر 1810ء میں لکھنو کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔
میر تقی میر جب لکھنؤ چلے توگاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے دلی کو خدا حافظ کہالکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرائے میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی۔ اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئےتو وہ شہرلکھنو نئے انداز ، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی سوچھا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو حال معلوم ہواصبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میرؔ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں، رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سناتودو سوروپیہ وظیفہ مقررکیا کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔ ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے! میرے صاحب نے تیوری بدل کر کہا: جناب عالی! مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کردے میر صاحب نے بد دماغی اور نازک مزاجی کو جو ان کے ذاتی مصاحب تھےاپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔میر تقی میربڑے ہی نازک مزاج اور بد دماغ ہونے کے باوجود وہ آدم بیزار نہیں تھے۔ چنانچہ ہنگامہ حیات سے خاص لگاﺅ رکھتے تھے۔
میر کے ہاں عشق آداب سکھاتا ہے محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہےاگرچہ اس کا انجام ہمیشہ المیاتی اور دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے۔ یہ عشق ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ اسی عشق سے میر نے زندگی کا سلیقہ اورحوصلہ سیکھا ہے۔ اسی عشق نے ان کی زندگی میں حرکت و عمل اور چہل پہل پیدا کی۔میر کے خیال میں زندگی کی ساری گہما گہمی اور گونا گونی اسی عشق کی وجہ سے ہےیہی عشق میرتقی میر کی اٹھاسی سالہ زندگی کا محوالم تھا۔
تحریر : عینی نیازی