تحریر:ایم اے تبسم
آج سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۖکی ولادت باسعادت کی مناسبت سے پورے عالم اسلام میں جشن عید میلاد النبی منایا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کو اپنی محبت کی نشانی قرار دیا ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے۔ ” اے پیغمبر! کہہ دو ! اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری پیروی کرو” مزید ارشاد ہوا۔ ”تمہارے لئے اللہ کے رسول ہی بہترین نمونہ عمل ہیں”۔حضرت عائشہ صدیقہ نے آپ ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجسم قرآن کہا تھا۔ آپ کے اسوہ حسنہ سے ہی دنیا انقلاب آشنا ہوئی۔ انسان نے اپنے آپ کو پہچانا’ انسانیت کی رفعتوں کو پایا’ زندگی کا قرینہ سیکھا’ مقصد حیات سے آگاہی حاصل کی۔ آج کے دن نے قیامت تک آنے والے زمانوں کے قرینے بدل دیئے۔ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے، طاقت اور تلوار کے زور پر نہیں بلکہ رحمتہ للعالمین کی تعلیمات اور محسن انسانیت کے اخوت، بھائی چارے، برابری کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ سلوک اور رواداری کے بل بوتے پر پھیلا۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری کائنات میں بلند ترین مقام پر فائز ہیں
جن کے وجود سے نکلنے والے پسینے میں خوشبو، ان کے پیغام حسنہ میں امن و بھائی چارے کا درس اور ان کے چلنے پھرنے میں لوگوں کو سکون قلب اور حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ شاہ و گدا بھی، امیر غریب حتیٰ کہ غیر مسلم بھی آپ کی ذات کو محسن عظیم قرار دیتے ہیں۔ دور حاضرمیں باہمی اخوت و محبت، امن و سلامتی اور امانت و دیانت کے پیغام اسلامی کو اجاگر کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے بدنما داغ اسلام اور مسلمانوں کے دامن سے صاف کر کے اسلام کے حقیقی پیغام کو نمایاں کیا جائے۔ اسلام رحمت اور امن کا درس دیتا ہے اور دلوں میں جذبہ محبت، امن اور خدمت انسانیت، محبت رسول کے ذریعے پیدا ہو تو انسانیت کی فلاح ممکن ہوتی ہے۔ بلاشبہ اسلام سیاست سے لے کر معیشت تک زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے اور یہ اجتماعی اور سیاسی زندگی کو بھی اسلامی خطوط پر استوار کرانے کا درس دیتا ہے۔
امت مسلمہ اتحاد کے بجائے نفاق میں مبتلا ہے، دنیا بھر میں مسلمان دشمنان اسلام کے آگے محتاج ومجبور ہیں۔جس دن ہم واقعتا امت محمدی بن گئے تو ہم دشمنان اسلام کی غلامی سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ ربیع الاول ایسا مقدس مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے معاشرے میں علم کی روشنی پھیلانے کیلئے نبی کریم کو پیدا فرمایا اور نبی کریم پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل کی جو رہتی دنیا تک انسانوں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں دنیا کے تمام علوم کے اشارے ملتے ہیں۔دنیا میں انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے بڑے بڑے فلسفہ ، نظریئے اور منشور پیش کئے گئے جن کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام میں قرآن مجید کی تعلیمات کا عکس دکھائی دے گا۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت محمد مصطفی کی امت میں پیدا کیا۔امت مسلمہ جن حالات سے گزررہی ہے
اس کا تقاضا ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیں لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر میں ہرجگہ مسلمان پیسوں ، مشینری ، ٹیکنالوجی، عسکری آلات اور دیگر معاملات میں دشمنان اسلام کے آگے محتاج ومجبور بنے ہوئے ہیں۔ہمیں عملاً یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اتحاد بین المسلمین اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے پوری سچائی کے ساتھ کام کریں۔ اگر ہم اب بھی عہد کرلیں کہ ہمیں امت واحد اور امت رسول بننا ہے تو پھر ہمیں اپنے عمل سے بھی دکھانا ہوگا کہ ہم ایک امت ہیں۔رسول اکرم ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپ کی تعلیمات پر عمل ہمارا مقصد زیست ہونا چاہیئے ایمان اور یقین کی دولت کے ذریعہ ہی ہمیں راہ حق پر چلنے کی سعادت حاصل ہوسکتی ہے۔علم ہی کے ذریعہ حق وباطل کی تمیز کی جاسکتی ہے
جب تک ہم عشق رسول سے اپنی زندگی کو معمور نہیں کرتے سچے مسلمان نہیں بن سکتے آج ہم علم وعمل سے دور ہوچکے ہیں۔ اسلام اخلاقی تعلیمات، احترام انسانیت کا درس دیتا ہے اور عدم تشدد کی تعلیم و تلقین کرتا ہے یہ آپ کا حسن سلوک ہی تھا کہ آپ سب کے لئے صادق اور امین تھے دراصل اسلامی تعلیمات ضابطہ حیات اور فلسفہ زیست سارے عالم انسانیت کے لئے بھی ہے۔ آج ہماری تباہی اور بربادی کی بنیادی وجہ دین اسلام سے دوری ہے۔ حضور اکرمۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لئے اثاثہ زیست ہے۔ اگر ہمیں پستی سے دوبارہ بلندی کی طرف جاناہے تو نبی اکرم ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا محور بنا نا ہوگا۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔ آج کے دن علمائے کرام حضور اکرم ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا بیان کرتے ہیں۔ انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آپ ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو اپنی زندگیاں حضورۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے مطابق گزارنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ سنجیدگی سے سوچا جائے تو یہ مبارک دن ہمارے لئے ہر پہلو اور ہر زاوئیے سے اپنی زندگیوں کو اسلام کے ابدی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے یوم تجدید عہد کا درجہ رکھتا ہے۔