تحریر : شاز ملک
گر ہوسکے تو میرے ذھن میں درد کی ان گنت ریشمی گرہیں تہ در تہ پڑی ہویی ہیں جن میں میری ذات الجھی ہوئی ہے تو گر ہو سکے تو وقت کے پروں پر اپنے دستے دعا رکھ کر انکو سلجھانے کا کوئی حل بھیج دے گر ہو سکے تو طاق دل پر تیری یاد کا جو جلتا دیا میں نے جلا رکھا ہے جو تندی ے بادِ مخالف کے باوجود ابھی تک جل رہا ہے گر ہو سکے تو اسے اپنے دیدار کی ہوا دے کر شعلہ ے عشق کو اور بھڑکا دے گر ہو سکے
تو میرے وجدان میں تیرے لمس کا اک لمحہ جان فضا ٹھہرا ہے گر ہو سکے تو میرے وجودِ سر سبز کے شجر پر آگے یاد کے اس تنہا زرد پتے کو اپنے وجود کی مہکی فضا عطا کر دے گر ہو سکے تو میرے پیاسے نینوں کے ساحل سے جب دیدار کی طالب لہریں ٹکراتی ہیں
تو میرے تن ے مردہ کو اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا ہے تو میرے ضبط کی رگیں ٹوٹنے لگتی ہیں گر ہو سکے تو ان یادوں کے بھرے بیکراں کی شوریدہ سر لہروں پر ضبط کا کوئی بند باندھ دے گر ہو سکے
تو میرے شعور کی بند کھڑکیاں جب درد کی دستک سے دل و روح میں کھلتی ہیں تو جانے کتنے خیال ے بے اماں سیڑھیاں بنا کرمتاعِ جان پر درد کی کمند ڈال رہے ہیںتو گر ہو سکے تو اپنے خیال ے نارسا کے سوا ہر کمند توڑ کر ہر کھلے در کو بند کر دے گر ہو سکے تو میری روح میں تو روح ے عشق بن کر سمایا ہے
جہاں ہر سو ہجر کا دشت بے اماں پھیلا دیکھتا ہوں گر ہو سکے تو تو اپنے اپنے وجود ِعشق سے صبر کی بارش برسا کر اسے جل تھل کر دے گر ہو سکے
میری ذات میں اترے ہے درد ے ہجر کے کرب کو تو کبھی محسوس کرے تو اپنی پاکیزہ دعاؤں کو احساس کے اوراقِ چاندی میں ملفوف کر کے اپنی نورانی روح کے ہاتھ اپنے لافانی عشق کا دلاسہ میری روح تک بھیج دے اے میرے محرم ِ روح سنو گر ہو سکے تو
تحریر : شاز ملک