تحریر : صوبیہ خان
میں اور میری بھانجی بشری اس وقت پورے انہماک سے ٹی وی کی سکرین پر چلتے ہوئے پڑوسی ملک کے گھسے پٹے ڈرامے کے رومینٹک سین میں کھوئے ہوئے تھے جب ہمارے پیچھے بیٹھی ہوئی میری باجی اور بشریٰ کی ماما کی جلی کٹی آواز آئی ‘ جیسے دیکھو پیار کر نا سیکھا رہا ہے آج کل …چلو کہیں اور لگائو’۔باجی کی آواز پر میرا اور میری بھانجی کا انہماک ٹوٹا٫ ہم نے حیران نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ہم پر ہنسی کا ایک دورہ سا پڑ گیا۔ہمیں ہنسی باجی کی بات سے زیادہ باجی کے جلے کٹے انداز پر آرہی تھی۔اور تھوڑی دیر بعد ہماری ہنسی میں باجی کی مسکراہٹ بھی شامل ہوگئی۔
اس کے بعد سے جب بھی ہم کوئی بھی ڈرامہ دیکھنے بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے سے یہی کہتے ہیں کہ چلو آئو ہماری پیار کی کلاس لینے کا ٹائم ہوگیا ہے اور ایک دوسرے سے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک دن ہم ان ڈراموں کے عین مطابق پیار کر نا سیکھ جائیں گے۔ مزاق تک تو یہ باتیں قابل برداشت ہے لیکن اگر آپ ایک فکری اور تنقیدی نظر ملکی چینلز پر نشر ہونے والے ملکی اور غیر ملکی ڈراموں اور فلموں پر ڈالیں تو آپ کی نظر افسوس کرتی واپس لوٹ آئے گی کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ ہر ڈرامہ اور ہر فلم پیار کرنا ہی سیکھارہی ہے
ہر کوئی صرف پیار کے رموزواوقاف بتا رہا ہے ٫ہرڈرامے کی کہانی ایک لڑکا٫ایک لڑکی اور ان کی انمٹ محبت کے گرد ہی گردش کررہی ہوتی ہے۔پرائم ٹائم میں چلنے والا ہر ڈرامہ عشق و محبت کی ایسی تصویر پیش کر تا ہے کہ گو یا زندگی میں صرف ایک مسلئہ ہے اور وہ ہے محبوب کی بے رخی یا دوری اور زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے محبوب کی محبت۔ حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے۔ جیسا کے فیض نے کہا تھا۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
قارئین ہم تیسری دنیا کے ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔جس کی محض نصف آ بادی ( برائے نام) خواندہ تصور کی جاتی ہے۔جس کی محض 0.5 آبادی اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کر پاتی ہے۔غربت اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں جہالت بھی عروج پر ہے۔ایسے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ دل دہل جائے۔ کبھی مرچ مسالے ڈال کر شوہر کا سالن بنا دیا جاتاہے تو کبھی معصوم ہاریوں پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں اور تو اور کبھی بے گناہ لڑکی کو زندہ جلا دیا جاتاہے۔
ذرا سوچئے کہ ایسا ملک جسے بنے ابھی محض نصف صدی کا عرصہ گزرا ہو ٫جس کی عوام کو ابھی زندگی کے ہر شعبے میں تعلیم اور تہذیب سکھانے کی ضرورت ہو٫صحیح غلط کی تمیز کروانی ہو اور جس قوم کو ابھی ترقی کی بہت منزلیں طے کرنی ہوں ایسے نہ پختہ قوم کو ہمارا میڈیا کیا سیکھا رہا ہے٫ اس کی تعلیم و تربیت میں کیا کردار ادا کر رہا ہے۔آج تمام قارئین ایک کام کیجئے۔آج سات بجے آپ اپنے ٹی وی کا ریموٹ لے کر بیٹھ جائیے اور سات سے لے کر بارہ بجے تک مختلف چینلز کی نشریات ملاحظہ کیجئے ۔میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ ان پانچ گھنٹوں میں آپ پچاس ایسے ڈرامے گن لیں گے جن کا مدعا گفتگو محض محبت ہوگا۔
وجہ بحث یہ نہیں کہ محبت کوئی بہت ہی بری چیز ہے یا مکمل طور حقیقت سے عاری ہے بلکہ بات یہ ہے کہ یہ محبت آپ سکھا کسے رہے ہیں؟ ایک وقت میں جب کوئی ڈرامہ نشر ہوتا ہے تو کم سے کم 60 لاکھ افراد اسے دیکھتے ہیں اور ان افراد میں کم سن بچے٫لڑکپن سے گزرتے نوعمر اور کچے ذہنوں کے مالک افرادبھی شا مل ہو تے ہیں۔اور ان سب باتوں سے خطرناک وہ نتائج ہیں جو ان ڈراموں اور فلموں سے حاصل ہوتے ہیں۔
میری لفاظی شاید ان نتائج کی تحلکہ خیزی نہ بیان کر پائیں لیکن جب ہم سنتے ہیں کہ کراچی کے دسویں جماعت کے لڑکا لڑکی نے محبت میں متوقع ناکامی کے باعث خودکشی کر لی یا پشاور کے ساتویں جماعت کے طالب علم نے پانچویں جماعت کی بچی کی معمولی بے روخی پر خود کو گولی مارلی تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس تیزی سے اور کس سفاکی سے ہم ٫ ہمارا معاشرہ اور ہمارے بچے محبت کے اس فریب زدہ جال کا شکار ہو رہے ہیں جو ہمیں ان ڈراموں اور فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔
ذرا سوچئے تو سہی کہ اس ساتویں جماعت کے بچے کے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا ہوگا۔یہ کہ میری دوست مجھ سے خفا ہے اور اب کبھی مجھ سے بات نہیں کرے گی تو مجھے مرجانا چائیے یا یہ کہ مجھے اگر اپنی محبت کو امر کر نا ہے تو مجھے مرنا ہوگا یا یہ کہ اگر ہم اس جنم میں نہیں مل پائے تو اس جنم میں مل جائیں گے۔۔۔۔۔۔کوئی حیرت نہیں اگر اس بچے کے دماغ میں ایسی ہی باتیں چل رہی تھیں کیونکہ یہ وہی باتیں ہیں جس کی آبیاری ہم دس بارہ سالوں سے کررہے ہیں۔
قارئین حالات ابھی اتنے خراب نہیں ہوئے کہ واپسی کے دروازے بند ہوجائیں۔مجھے٫آپ کو ٫ہمارے میڈیا کو اور ہر انفرادی شخص مل کر اس طرح کے ڈراموں اور فلموں کو رد کرنا ہوگا ۔میڈیا انہیں چلانا بند کر دیں اور اگر چلائیں تو عوام اسے دیکھنا بند کر دیں تبھی ہم اپنی نئی نسل کو تباہی اور بربادی کے گڑھے میں جانے سے بچا سکیں گے ورنہ اس طرح کی خبریں آتی رہیں گیں اور ہم اسی طرح کے نتائج بھگتے رہیں گے۔
تحریر : صوبیہ خان