تحریر: لقمان اسد
67 برسوں میں ہمارے حکمران طبقہ نے کئی ملکی ادارے تباہ کیے ہیں بلکہ یو کہیے تو ںبے جانہ ہوگا کہ ہم نے ترقی کی بجائے تنزلی کو اپنا شعار بنائے رکھا اور آبادی کی بجائے ہم بربادی اور تباہی پر تلے رہے ظاہر ہے اب نتیجہ بھگت رہے ہیں دو برس کا عرصہ ن لیگ کی نئی نویلی حکومت کو قائم ہوئے بیت گیا اور اب تک وزارت خارجہ کا قلم دان خالی پڑا ہے 2002 کے الیکشن کے بعد ق لیگ میں ایک وزارت جس پر ہنگامہ کھڑا ہوا وہ بھی یہی وزارت خارجہ ہی تھی ایک شہید جرنیل کے بیٹے کی خواہش کی تکمیل میں روڑے اٹکانے والے کو ٹھکانے لگایا گیا مطلب انہیں کہیں اور ایڈجسٹ کیا گیا اور اس وزارت کا قلمدان جنرل اختر عبدالرحمٰن شہید کے بیٹے ہمایوں اخترخان کو سونپا گیا سنا ہے وہ یہ وزارت لینے پر بضد تھے چوہدری برادران کھلے ڈلے لوگ ہیں انہوں نے تادیر ضد نہ کی اور ان کی یہ آرزو کھلے دل سے پوری کردی سبب اس کا یہ تھا کہ ہمایوں اختر خان بیرون ملک اپنا کاروبار وسیع بنیادوں پر پھیلانا چاہتے تھے اس لیے ان کی اس دیرینہ خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں یہ وزارت سونپ دی گئی۔
یہ پاکستان میں آمری جمہوریت کا دور تھا اور سیاہ اور سفید کے مالک سابق صدر جنرل مشرف تھے 2002 کے الیکشن کے تحت وجود میں آنے والی حکومت نے اپنی مدت پوری کرلی پھر 2008 کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا ملتان کے شاہ محمود قریشی پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم کرنے اور اپنے آپ کو وزارت اعلی کے منصب پر دیکھنے کے خواہش مند تھے ایک سیاستدان کے طور پر یہ ان کی غلط سوچ ہرگز نہ تھی مگر سیاست کے ڈاکٹر آصف علی زرداری ن لیگ کے ساتھ اپنا یارانہ مضبوط کرنے کی بنیاد میں رخنہ نہ ڈالنا چاہتے تھے اور انہوں نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے پنجاب کے ممبران اسمبلی پر واضح کیا کہ وہ پنجاب میں ن لیگ کو ڈسٹرب کرنے کی خواہش نہیں رکھتے شاہ محمود قریشی سے پوچھا گیا کہ اب وہ بتائیں کہاں پر وہ راضی ہوںگے تو ان کے دل میں ہمایوں اختر خان والی تمنا نے انگڑائی لی اور انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کا عندیہ ظاہر کیا۔
آصف علی زرداری شاید انہیں ناراض نہ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے بھی حامی بھرلی کچھ عرصہ بعد شاہ محمود قریشی سے وزارت خارجہ کا قلمدان کچھ نا گزیر وجوہات کی بنیاد پر واپس لے لیا گیا اسی دن سے غالباً شاہ محمود قریشی ذہنی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پارٹی قیادت سے دور ہوگئے اول ن لیگ سے ان کے رابطے رہے بعد میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کرلیا اب 2013کے الیکشن کے بعد ن لیگ کی حکومت قائم ہے اور اب تک اس حکومت میں وزارت خارجہ کا اہم ترین عہدہ خالی پڑا ہے ایک وجہ تو اس کی یہ سمجھ میں آتی ہے چونکہ میاں صاحبان خود بہت بڑے سرمایہ دار اور بہت بڑے تاجر ہیں بیرون ملک ان کے ماشاء اللہ بے بہا کاروبار اور سرمایہ پڑا ہے اس لیے میاں صاحبان کو اپنی حکومت ہوتے ہوئے وزارت خارجہ کا منصب کسی اور کو سونپنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور وہ اپنی پارٹی میں کسی ہمایوں اختر خان اور شاہ محمود قریشی کی یہ خواہش مجبوراً پوری نہیں کرسکتے۔
جبکہ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے اس عہدہ کیلئے انہیں کوئی احمد علی اولکھ جیسا باوفا، وفاشعار ، عقیدت مند اور مخلص اب تک اپنی پارٹی میں میسر نہیں آسکا ان سطور کی وساطت سے میاں صاحبان کو میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اب کرکٹ بورڈ کے معاملات سے نجم سٹھی کو دور رکھا جائے اور وہ اپنے دیرینہ ساتھی ملک احمد علی اولکھ کو کرکٹ بورڈ کی ذمہ داریاں سونپ کر اس کھیل کی مزید تباہی کیلئے انہیں سرگرم کردیا جائے یہ میاں صاحبان کو مشورہ کے ساتھ ساتھ ایک مطالبہ بھی ہے آگے ملک احمد علی اولکھ صاحب کو چاہیے کہ وہ ان ذمہ داریوں کے حصول کیلئے سنجیدگی کے ساتھ پوری کوشش اور سعی کریں،یقیناً کرکٹ بورڈ کی ذمہ داریاں ملک احمد علی اولکھ کو مل جانے کے بعد جنوبی پنجاب کا احساس محرومی بھی بہت حد تک ختم کیا جاسکتا ہے۔
تحریر: لقمان اسد