تحریر : محمد جواد خان
سخت گرمی کا موسم انسان تو انسان چرند و پرند بھی پناہ کی تلاش میں مگن ہیں ، سخت دھوپ و گرمی کے عالم میں بجائے مجبوری کے انسان گھر سے نکلنا دشوار ہوتا ہے۔ ایک دن میںاپنی والدہ کے لیے دوائی لینے بازار گیا جو کہ بازار کے اکثر سٹورز پر موجو د نہیں تھی اور وہ دینی بھی ضروری تھی ، اس دوائی کی تلا ش میں گھومتے ہوئے میں پانی، جوس یا کوئی بھی ڈرنگ لینا بھول گیا کہ پہلے دوائی کا بندو بست کر وں پھر خود کہیں بیٹھ کر جوس پیتا ہوں۔
مگر کہتے ہیں نہ کہ اگر انسان کے دن بُرے آجائیں تو اونٹ پر بیٹھے ہوئے کتا کاٹ جاتا ہے۔۔۔ بلکل اسی طرح میرے ساتھ ہوا، روڈ کراس کرنے لگا تو آنگھوں کے آگے اندھیرا آنے لگاقریب تھا کہ میں اپنے ہوش و ہواس کھو کر بیچ بازار میں گر جاتا اور عین ممکن تھا کہ میرا کوئی بازو وغیرہ بھی ٹوٹ جاتا۔۔۔میری نظر اچانک پاس کی دکان میں پڑی ہوئی بینچ پر پڑی تو بمشکل اس کے اوپر اپنے آپ کو سمیٹتے ہوئے بیٹھا۔۔۔ دکاندار بھلے مانس ایک شریف النفس آدمی تھاوہ بھاگا اور ایک گلاس لا کر میرے ہونٹوں سے لگایا جس کے کچھ ہی لمحے بعد میرے ہوش و ہواس آہستہ آہستہ بحال ہونے لگے۔
بعدازاں میں نے اس بھلے مانس دکاندار سے دریافت کیا کہ : یہ کیا تھا جو آپ نے مجھ کو پلایا۔۔۔؟؟؟ تو اس نے شریفانہ انداز میں جواب عرض کیا کہ جناب یہ بازار ہے ۔۔۔ اور اوپر سے سخت دھوپ میں گرمی کی تپش سے آ پ کی طرح کئی لوگوں کی کیفیت گرمی و بلڈ پریشر کی کمی کے سبب ایسی ہو جاتی ہے تو ہم روزانہ تین ، چار دفعہ دن میں پانی کے کولر کو بھرتے ہیں جس میں ہم چینی، نمک ، لیموں اور جام شیریں وغیرہ ڈال کر مکس کر کے رکھتے ہیں۔ جب میں نے کولر کی طرف دیکھا تو میری حیرت کی انتہا ء نہ رہی اور بے ساختہ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کولر ہے یاکہ ڈرم ۔۔۔؟؟؟۔
الغرض احساسِ انسانیت کے اس عظیم دکاندار کو گلے لگانے کی من نے آرزو کے ساتھ اس جذبہ عالی شان کو سلام پیش کیا۔ اس سارے واقع سے مجھ کو انتہائی سکون و راحت ملی کہ لوگ کہتے ہیں کہ انسانیت ختم ہو گئی ہے۔۔۔معاشرہ بے حس ہو گیا ہے۔۔۔ مگر زندہ دل لوگ آج بھی ہمارے معاشرے کا ایک حسین پہلو ہیںجو معاشرے کی بنیادوں کو اپنے احسن رویوں اور حُسن کردار سے منور کر کے معاشرے کی چمک کو چار چاند لگا رہے ہیں۔۔۔ آئیے معاشرے کے مثبت رویوں کی طرف بھی سوچیں۔۔۔کیونکہ معاشرہ ہماری سوچ و افکار سے بنتا ہے۔
اگر ہماری سوچ ۔۔۔ہمارا عمل۔۔۔ ہمارا رویہ مثبت اور جامع ہوا تو ضرور معاشرے کے اندر مثبت تبدیلی رونما ہو گی ۔سخت موسم میں ہمارا بھی کام بنتا ہے کہ ہم اس دکاندار کی مثل شربت نہ بنا کر رکھیں البتہ سادہ پانی تو رکھ سکتے ہیں۔۔۔ اتنا بھی نہیں تو اپنے گھر کی چھت یا صحن میں پرندوں کے لیے تو پانی رکھ سکتے ہیں ۔۔ ۔ راستے میں چلتے ہوئے پتھر یا کانچ کے ٹکڑے کو تو اُٹھا سکتے ہیں۔۔۔ رزق کے بکھر ے ٹکڑوں کو اُٹھا کر کسی اونچی جگہ تو رکھ سکتے ہیں۔۔۔ بہت سے لوگ معاشرے کا سارا بوجھ دوسروں کے سر پر ڈال دیتے ہیں۔
کوئی کمیٹیوں کے اوپر، کوئی سیاسی رہنمائوں کے اوپر ، کوئی سوشل ورکر ز کے اوپراور کوئی انتظامیہ کے اوپر مگرکوئی بھی خود اپنے دم پر کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور بات کرتے ہیںکہ معاشرہ ٹھیک نہیں۔۔۔ زمانہ خراب ہے۔۔۔ جبکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود خراب ہیں۔۔۔ ہم اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں تو معاشرہ ہم ہی لوگوں سے مل کر بنتا ہے تو وہ خود بخو د ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔۔ اور معاشرے کے اندر ایک واضح تبدیلی منور نظر آئے گی ایسی تبدیلی جس سے ہم اپنی اسلامی و اخلاقی اقدار و روایات کو برقرار رکھ پائیں گئے۔
تحریر : محمد جواد خان
mohammadjawadkhan77@gmail.com