..ابوبکر قدوسی
خالق کی تقسیم پر آپ راضی نہ رہیں ، اندر الحاد اتر چکا ، اللہ اور مذہب کا انکار اتنا آسان نہیں ، سو خاتون آپ نے چور راستہ تلاش کیا کہ اللہ کے عطا کردہ ضابطوں کا انکار کیا جائے – اس کی تقسیم کو “جبر” قرار دیا جائے – بغاوت کی راہ اختیار کی جائے – اور خود کو “آزاد خیال ” کہا جائے –
گزرے دنوں اسلام آباد میں ایسی ہی “آزاد خیال ” خواتین جمع ہوئیں ، انتہائی بھدی لکھائی میں کتبے اٹھائے باہر سڑکوں پر تھیں –
“میں نے برتن نہیں دھونے ، میں بھی ایک سخت لونڈا ہوں ”
اور نہ جانے کیا الا بلا اور “اول فول” لکھا تھا – حالت بے چاریوں کی یہ تھی کہ اردو لکھنے سے بھی قاصر ، کسی ” نالائق مرد ” سے ہی لکھوا لیا ہوتا –
خواتین ! ہم مان لیے – آپ آج کے بعد ” لونڈیا ” نہیں ، لونڈا ہیں – سو آج کے بعد کام بدل لیتے ہیں –
کس شعبے سے شروع کریں گی ؟
چلیے ! کم ترین شعبے سے آغاز کرتے ہیں –
یہ لکشمی چوک میں گٹر بند ہیں اور عوام فون کر کر کے ناک میں دم کیے دے رہے ہیں ، سو “شیلا جی ” اپنی جوانی دکھائیے ، کہ آج سے آپ بھی ایک سخت لونڈا ہیں – ذرا ناک سے رومال ہٹائیے کیونکہ آپ کے میاں صاحب کل اسی گٹر میں اتر کے جان کھپا کے ناکام رہے تھے ان کو بھی بو آتی تھی مگر وہ سب بھول کے لگے رہے –
یہ واپڈا کا کھمبا ہے ، ذرا پائے نازک سے پائل اتاریے ، چل میری چندا ، ذرا اوپر چڑھ نا …
اور ہاں !
“اوئی ، ہائے اللہ جی ، مر گئی” .
جیسی آوازیں نکالنا منع ہیں …چلیے جلدی کیجئے …ارے ہاں دھیان سے کرنٹ نہ لگ جائے —– دستانے بھاری ہیں ؟؟؟؟؟
ہیں بھلا دستانے بھی بھاری ہوتے ہیں ؟؟؟
..اچھا آپ بھی آئی ہیں ؟؟؟
آپ بہت سخت لونڈا ہیں ؟
چل میری رانی ، ذرا یہ پیاز کی بوری اٹھاو …اور اس کو اس ٹرک پر پھینک کے آؤ …بھاری ہے ؟؟
ارے نہیں تو ….. ڈھائی من کی ہی تو ہے … اور آپ سخت لونڈیا ہو …
بس آج کے بعد من من کے برتن نہیں دھونا پڑیں گے نا ..نہ ہی ہزاروں کلو کے کپڑے استری کرنا ہوں گے ..یہ تو ” پھول ” سی ، ہلکی پھلکی بوریاں ہیں ، ریشم کی گانٹھ جیسی …چلو اٹھاؤ ان کو …… ان کو اٹھاؤ گی تو پیسا ملے گا ، مزدوری ملی گی تو گھر چلے گا …چل شاباش ، گھر میں تیرا میاں برتن دھو دھو کے تھک گیا ہے اور انتظار میں ہے کہ تو ” کما ” کے لائے گی تو ہانڈی چڑھائے گا –
مجھے یقین ہے کہ ہماری ان ” معصوم ” خواتین کی یہیں پر بس ہو جانی ہے – ممکن ہے آپ بھی کہیں کہ جناب آپ نے بھی تو سیدھا گٹر میں اتار دیا ، ٹرک پر چڑھا دیا ، کھمبے پر لٹکا دیا –
تو بھائی ان کی اپنی ہی تو ڈیمانڈ پر —- جب برابری کرنی ہے تو ڈیوٹی بھی پوری کرنا ہو گی –
جب اللہ کی تقسیم سے انکار کرنا ہے تو “اچھا اچھا ہپ…اور کڑوا تھو ” کا اختیار نہیں مل سکتا –
اب ذرا زندگی کے دوسرے شعبہ جات کی طرف آ جائیے –
کیا خواتین بیس بیس گھنٹے حشر کی گرمی میں ٹرک چلا سکتی ہیں ؟
سارا سارا دن کرین کی سیٹ پر بیٹھ کے کھدائی کر سکتی ہیں ؟
کیا شاہ عالمی میں بارہ بارہ گھنٹے مسلسل ہزاروں گاہکوں کو نپٹا سکتی ہیں ؟
کیا سبزی منڈی میں اور تھوک کے بازاروں میں سو سو کلو کی بوریاں اٹھا کے ٹرک کو لوڈ ، اور ان لوڈ کر سکتی ہیں ؟
سیلاب آ جائیں ، زلزلے آ جائیں ، حادثے ہو جائیں ، جسمانی مشقت سہار کے کسی کو ریسکیو کر سکتی ہیں ؟
اتنی مثالیں ہیں کہ بندہ لکھتا تھک جائے اور ختم نہ ہوں ….
جب ہر بات پر انکار ہے تو غرور کس بات کا ؟
پھر بھی مرد آپ کو عزت دیتا ہے …ماں ہوتی ہو تو قدموں میں سر رکھتا ہے ، بیوی بنتی ہو قدموں میں لوٹتا ہے – بہن بنتی ہو تو سائبان بن جاتا ہے –
آپ گھر میں سکون سے بیٹھی ہو اور وہ جھلا دن بھر سڑکوں پر ، ننگے بدن دھوپ تلے ، تپتی سڑکوں پر خود کو جلاتا ہے اور آپ کے لیے ایک مسکراہٹ خرید کے لاتا ہے —– اور آپ ، آپ کہتی ہو کہ :
” میں کپڑے استری نہیں کروں گی ، میں کھانا گرم نہیں کروں گی ”
بصد شوق ، نہ کیجئے لیکن :
پھر آج گٹر صاف کیجئے ، ٹرک چلائیے ، دکان داری کیجئے ، مال لوڈ کیجئے ، جہاز چلائیے ، تپتی بھٹی پر بیٹھ کے لوہا کوٹیے ، گلی گلی ، نگر نگر پھر کے سبزی بیچیے ، کوریر سروسز میں جا کے محلہ محلہ ڈاک بانٹیے …….
“مشکل مشکل ” کام ہم کر لیں گے ، برتن دھو لیں گے ، کھانا پکا لیں گے ، کپڑے استری کر لیں گے
………ٹھیک ہے نا میڈم ؟؟؟
ابوبکر قدوسی