تحریر۔ ڈاکٹر ساجد علی
فیس بک پر ایک عزیز نے مشہور بھارتی مورخ رومیلا تھاپر کے حوالے سے ایک پوسٹ لگائی ہے جس میںیہ دعوی کیا گیا ہے کہ محمود غزنوی کے ہاتھوں سومنات کی تباہی کی داستان انگریزوں کی گھڑی ہوئی ہے۔ اس قصے کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تفرقہ پیدا کرنا تھا۔ پوسٹ میں رومیلا تھاپر کے خیالات کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ ان کا اصل موقف کیا ہے۔ کیا محمود غزنوی نے سومنات پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا؟ یا حملہ تو کیا تھا مگر کوئی لوٹ مار نہیں کی تھی۔ محمود غزنوی کوئی پہلا شخص نہیں جس نے کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ پر حملہ کیا ہو۔ اسکندر یونانی سے لے کر بہت سے حملہ آور اور جنگ جو ایسا کرتے آئے ہیں اور خود بھارت میں مختلف راجے اور مہاراجے کئی دفعہ ایسا کر چکے ہیں۔
اس وقت میرا سروکار صرف پہلی بات سے ہے کہ یہ جھوٹا قصہ انگریزوں کا گھڑا ہوا ہے۔ سر ٹامس رو شاید پہلا انگریز تھا جو سنہ 1615 میں برطانوی بادشاہ جیمز اول اور ایسٹ انڈیاکمپنی کے سفیر کے طور پر برطانوی بادشاہ کا مغل شہنشاہ جہانگیر کے نام مراسلہ لے کر ہندوستان وارد ہوا۔ تاہم چودھویں صدی کے مسلمان مورخ ابن خلدون ، جو سر ٹامس رو کی ہندوستان میں آمد سے دو سو نو سال (1406 ) قبل وفات پا چکا تھا، کی تاریخ میں اس واقعہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس تاریخ کا اردو ترجمہ کراچی سے نفیس اکیڈمی کی جانب سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کی جلد ششم میں محمود غزنوی کے دور حکومت کا ذکر خاصی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ ہندوستان پر اس کی مہمات کے حالات میں سے چند ایک کا ذکر کچھ اس طرح کیا گیا ہے۔ یہ اس کتاب کے671 تا 690 صفحات کا خلاصہ ہے۔
”اپنے بھائی اسماعیل کو شکست دینے کے بعد ”محمود کے قدم حکومت و سلطنت پر جم جاتے ہیں، اور اپنے آپ کو سلطان کے لقب سے ملقب کرتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل کسی نے اپنے آپ کو اس لقب سے ملقب نہیں کیا تھا۔
اسی زمانہ میں خلافت مآب القادر باللہ عباسی کی خلافت کی بیعت کی اور اس کے نام کا خطبہ پڑھے جانے کا حکم دیا۔ خلافت مآب نے دارالخلافہ بغداد سے بیش بہا خلعت اور پھریرے حسب دستور روانہ کیے۔ اور امین الملت اور یمین الدولہ کا خطاب مرحمت فرمایا۔ محمود کو اسی وقت سے مطلق العنان حکومت حاصل ہو جاتی ہے اور اس کا غلغلہ اقبال اطراف عالم میں پھیل جاتا ہے۔ خراسان کی حکومت پر اس کے قدم جم جاتے ہیں اور آئندہ ہر سال ہندوستان پر جہاد کرتا رہتا ہے
اس کے بعد جب محمود کو اندرونی مخالفت اور ریشہ دوانی سے یک گونہ فراغت حاصل ہو گئی تو اس نے ہندوستان پر حملے کی تیاری کی۔ ۔ ۔ سخت اور خوں ریز جنگ کے بعد راجہ جے پال کو شکست ہوئی۔ ۔ ۔ کئی مرصع حمائل، جنہیں مالا کہتے ہیں، غنیمت میں ہاتھ آئے ان میں ایک ایک کی قیمت ایک لاکھ دینار تھی۔ ان کے علاوہ پانچ ہزار ہندو لونڈی غلام بنائے گئے۔
قلعہ گوالیار پر فوج کشی کا تذکرہ اس طرح کیا ہے: اس قلعہ میں چھ سو بت خانے تھے، محمود نے بزور تیغ اس قلعے کو بھی فتح کیا۔ بتوں کو توڑ ڈالا، بت خانے جلا دیے ۔ والی قلعہ نندا نے بھاگ کر کالنجر کے قلعے میں پناہ لی۔ محمود نے اس کا وہاں پیچھا کیا۔ لڑائی کے بعد راجہ نندا سے پچاس فیل زنجیر اور تین ہزار من چاندی پر مصالحت کر لی کیونکہ پیچھے خراسان میں بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔
جب قلعہ بھیم نگر کو فتح کیا گیا تو وہاں سے جو مال غنیمت ہاتھ لگا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: سات لاکھ دینار سرخ، سات سو من سونے اور چاندی کے برتن، دو لاکھ من خالص سونا، بیس لاکھ من چاندی، اورہزار ہا تھان دیبا اور ریشمی پارچہ جات کے ہاتھ آئے۔ اسی قلعہ میں ایک چاندی کا مکان ملا تھاجس کا طول تیس ہاتھ اور عرض پندرہ ہاتھ تھا۔ اور اطلس اور دیبا کا ایک شامیانہ ساٹھ گز لمبااور تیس گز چوڑا برآمد ہوا تھاجس کی چوبیں سونے اور چاندی کی تھیں اسے انتہائی احتیاط کے ساتھ غزنی روانہ کر دیا گیا۔ سلطان محمود نے غزنی پہنچ کر اپنے دارالامارت کے صحن میں اس شامیانہ کو نصب کرایا، جواہرات کو چنوایا، اطراف و جوانب کے وفود دیکھنے اور مبارک باد دینے آئے۔
جب متھرا پر حملہ کیا تو کوئی مقابلے پر نہ آیا۔ سلطان نے شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ شہر نہایت آباد اور خوش منظر تھا۔ اس شہر کی تمام عمارتیں سنگی تھیں۔ اندرون شہر میں ایک ہزار محل آسمان سے باتیں کر رہے تھے جو دراصل بتوں کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان محلات کے وسط میں ایک بہت بڑا بت خانہ تھا جس میں پانچ بت سونے کے پائے گئے جو لمبائی میں پانچ پانچ ہاتھ تھے، ان کی آنکھیں یاقوت سرخ کی تھیں، جن کی قیمت تخمینی اس وقت پچاس ہزار تھی اور اک بت کی آنکھوں میں یاقوت ارزق( نیلم) کے ٹکڑے لگے تھے،جن کا وزن چار سو مثقال تھا اور جب اس بت کو توڑا تو اس کے صرف پاؤں سے چار ہزار چار سو مثقال سونا برآمد ہوا اور پیٹ وغیرہ سے اٹھانوے ہزار خالص سونا برآمد ہوا۔ ان بڑے بتوں کے علاوہ سو سے زاید چھوٹے بت ہاتھ لگے جن کا وزن سو اونٹوں کا تھا۔ سلطان نے ان بتوں اور بت خانوں کو گروا کر زمین کے برابر کر دیا۔
راجہ چند رائے کے قلعے پر قبضہ کیا تو سلطان نے مال غنیمت جمع کرنے کا حکم دیا۔ مال غنیمت کی تعداد تین لاکھ دینار سرخ اور تین لاکھ درہم تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ بے شمار جواہرات اور یاقوت ہاتھ آئے۔ قیدیوں کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ غزنی میں ایک ایک غلام دس درہم سے دو رہم تک فروخت ہوا۔
غزنی پہنچ کر سلطان نے ایک بہت عظیم الشان مسجدبنوائی، ہندوستان سے سنگ خاراا ور سنگ رخام لے جا کر اس کی بنیادوں میں لگایا،درودیوار پر ہندوستان کے بت خانوں کے طلائی اور نقرئی پتھر جڑوائے۔
سومنات کا مندر ہندوؤں کا بہت بڑا بت خانہ تھا۔ ہندوستان کے سب بت خانوں سے زیادہ محترم اور معظم سمجھا جاتا تھا۔ یہ بت خانہ ایک مضبوط قلعہ میں، جو سمندر کے کنارے تھا، بنا ہوا تھا۔ سمندر کی لہریں مد و جزر کے وقت بت خانے تک آیا کرتی تھیں۔ ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ سمندر اس بت خانے کے قدم چومنے کے لیے آتا ہے۔
بت خانہ کی عمارت نہایت عظیم الشان اور وسیع تھی۔ چھپن مرصع کھمبوں پر وہ عمارت قائم تھی۔ بت کا مجسمہ پتھر تراش کر بنایا گیا تھا جس کی لمبائی پانچ گز تھی۔ دو گز زمین میں گڑا ہوا تھااور دو گز باہر تھا۔ اس بت کی کوئی خاص صورت نہ تھی۔ بت خانہ ایک تاریک مقام میں تھا، قندیلوں میں جواہرات جڑے تھے جن سے روشن رہتا تھا۔ بت کے قریب طلائی زنجیر میں ایک سو من کا گھنٹا لٹکا ہوا تھا جو اوقات مقررہ پر شب کے وقت بجایا جاتا تھا۔ اس کی آواز سے پجاری برہمن بتوں کی عبادت کے لیے آتے تھے۔ اس بڑے بت کے پاس بہت سے سونے چاندی کے بت رکھے ہوئے تھے۔ بت کدے کے دروازے پر زربفت کے پردے پڑے تھے جن کی جھالروں میں موتی اور جواہر لٹکے ہوئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کی قیمت بیس بیس ہزار دینار تھی۔
جب محمود نے سومنات پر حملہ کیا تو گھمسان کی جنگ کے تیسرے روز مجاہدین اسلام کے پرزور حملوں نے سورما راجپوتوں کو شکست دے ہی دی۔ نہایت ابتری کے ساتھ پسپا ہوئے۔ پچاس ہزار کھیت رہے باقی ماندہ کشتیوں پر سوار ہو کر بھاگ نکلے۔ اسلامی بہادروں نے تعاقب کیا، قتل و غارت گری کا سیلاب بڑھا، ہزاروں دریا میں ڈوب کر مر گئے، بہت سوں کو اسلامی دلاوروں نے تلوار کے گھاٹ اتارا۔ قلعہ پر کامیابی کے ساتھ سلطان کا قبضہ ہو گیا۔ “
( تاریخ ابن خلدون۔ حصہ ششم۔ نفیس اکیڈمی، کراچی)
رومیلا تھاپر کی کتاب تو میں نے نہیں پڑھی مگر ابن خلدون کے اس بیان کے بعد اس دعوے کو تسلیم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ یہ قصہ محض انگریزوں کا گھڑا ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابن خلدون نے بھی سومنات کے ذکر میں بت توڑنے کا کوئی ذکر نہیںکیا مگر اس سے یہ حتمی نتیجہ برآمد کرنا درست نہ ہو گا کہ اس نے سومنات کے بت سے تعرض نہیں کیا تھا یا وہاں کی دولت کو مال غنیمت جان کر اپنے قبضے میں نہیں لیا تھا۔ بت شکنی کا خاص اس مقام پر تذکرہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کا معمول یہی تھا کہ جب بھی وہ کسی مندر پر حملہ کرتا تھا تو بتوں کو توڑ دیتا تھا اور اکثر صورتوں میں مندر بھی مسمار کر دیتا تھا۔ بت شکنی کا ذکر نہ کرنے پر قاری یہ نتیجہ از خود اخذ کر سکتا ہے کہ سلطان معظم نے یہاں بھی اپنے معمول کو برقرار رکھا ہو گا۔ سومنات پرحملے سے اسے شاید مایوسی بھی ہوئی کیونکہ وہاں سے جو کچھ ہاتھ لگا وہ بھیم نگر اور متھرا کے مقابلے پر بہت کم تھا۔
تاریخ ابن خلدون کے مطالعہ کے دوران اس دلچسپ حقیقت سے بھی واسطہ پڑتا ہے کہ سلطان محمود کی وسطی ایشیا میں جتنی بھی مہمات ہیں وہ زیادہ تر فتنہ کی سرکوبی اور سرکشی کے خاتمے کے لیے ہوتی ہیں مگر جب وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے تو اسے جہاد کا نام دے دیا جاتا ہے اور اس کی افواج لشکر اسلام سے موسوم کی جاتی ہیں۔ وسطی ایشیا کی مہمات میں فتوحات کا تذکرہ تو بہت ہے مگر یہ ذکر کہیں نہیںملتا کہ کس مہم میں کتنا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ ہندوستان پر حملے کے نتیجے میں مال و دولت کے حصول کو بہت نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یعنی ہندوستان کو تاریخی طور پر سونے کی چڑیا ایسے ہی نہیں کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں مستقل سلطنت قائم نہ کرنے کا سبب یہی معلوم پڑتا ہے کہ اس کی اصل دلچسپی وسطی ایشیا کے ساتھ تھی اور وہاں کی جنگوں کی فنڈنگ ہندوستان کی مہمات سے کی جاتی تھی۔
بہت برس پہلے کسی کتاب میں تاریخ کے متعلق ایک مقولہ پڑھا تھا کہ تاریخ ایک ایسا جھوٹ ہے جس پر بالعموم اتفاق کر لیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ نطشے شاید ٹھیک ہی کہتا ہے کہ حقائق کوئی چیز نہیں، بس تعبیریں ہی ہیں۔ جیسی جس کے دھیان میں آئی۔
ڈاکٹر ساجد علی