دین اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے۔اس کے احکامات انتہائی عمدہ‘تقویٰ ‘للہیت‘خوف باری تعالیٰ اور پاکیزگی پر مبنی ہیں۔اسلام جہاں ظاہری گندگی سے بچنے کی تلقین کرتاہے‘اس کے ساتھ ساتھ ایسے انتظامات مسلم معاشرے کو دیتاہے جس سے ہر فرد کی روحانی تربیت بھی ہوتی ہے چونکہ شیطان اور اس کے کارندے ہمہ وقت اپنے کام میں مصروف ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے نکال کر اسے نافرمانی اور برے اعمال میں
شرط ہارنے پر لڑکی نے اسٹیڈیم میں ہی حیرت انگیز قدم اُٹھا لیا، شائقین اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے
پھنسا دیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے لئے جہاں انہیں خود گناہ کے کاموں سے بچنے کی تلقین کی ہے وہاں پر ان کے بچوں کے لئے بھی احکامات صادر فرمائے ہیں اور ارشاد فرمایا ہے کہ:”اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھرہوں گے جس کے اوپر انتہائی مضبوط فرشتے مقرر ہیں۔اللہ تعالیٰ جو انہیں حکم کرتاہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو انہیں حکم دیا جاتاہے وہ اسے کرگزرتے ہیں“۔اس آیت کریمہ میں اللہ نے مومنین کو خطاب کرتے ہوئے جہاں انہیں خود جہنم سے بچنے کا امر فرمایاہے وہاں انہیں اپنے گھر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی ہر حرکت سے بچانے کی کوشش کریں جو اسلام کے منافی ہو۔اسلام نے بچوں کو شر سے بچانے کے لئے کئی ایک اقدامات کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بچہ جب 10سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے الگ بستر کرکے دیا جائے تاکہ وہ ابتداء سے ہی شیطانی حرکات سے محفوظ رہے۔رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو۔جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں نماز کے ترک پر مارو اور ان کے بستر الگ کردو“۔علامہ محمود محمد رحمة اللہ علیہ ابو داؤد کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ:”ان کے بستر جدا جد ا کردو کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سونے کی جگہیں الگ الگ بناؤ۔اس لئے کہ جب وہ 1سال کو پہنچتے ہیں تو بلوغت کی ادنیٰ حد تک قریب ہو جاتے ہیں۔ان کی شہوت زیادہ ہوجاتی ہے اور ان پر فساد وخرابی کاڈر ہوتاہے۔یہ اس بات پر دلالت ہے کہ ولی پر واجب ہے کہ وہ بچوں کے درمیان سونے کی جگہوں میں تفریق ڈال دے اگر چہ وہ بھائی ہی کیوں نہ ہوں جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں“۔اسی طرح علامہ مناوی جامع صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:”جب تمہاری اولاد دس برس کی عمر کو پہنچ جائے تو ان کے وہ بستر جہاں وہ سوتے ہیں۔جدا جدا کردو شہوت کی مصیبتوں سے ڈرتے ہوئے اگر چہ دو بہنیں ہی ہوں
https://www.healthline.com/health/causes-of-child-abuse
۔امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی السنن الکبریٰ میں( باپوں اور ماؤں پر بچوں کی تعلیم میں پاکیزگی اور نماز سے جو لازم ہے )کے تحت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بسند قوی روایت لائے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:”اپنے بچوں کی نماز کے بارے میں حفاظت کرو پھر انہیں خیر کی عادت ڈالو اس لئے کہ خیر عادت کے ذریعے آتی ہے“۔یعنی جب بچوں کو نیکی و بھلائی کی تم عادت ڈالو گے تو یہ نیکی وبھلائی ان میں مستقل قائم ہوگی کیونکہ جب کسی کام کی عادت پڑجاتی ہے تو انسان اُسے ترک نہیں کرتا۔اس لئے بچوں کو ابتداء سے ہی اچھی باتوں کی طرف توجہ دلائی جائے تاکہ وہ نماز اور روزہ‘تقویٰ‘پر ہیز گاری اور اخلاق حسنہ کے ابتداء سے ہی عادی بن جائیں اور شر سے بچے رہیں۔اسی بات کے پیش نظر شریعت اسلامیہ بچوں کو دس سال کی عمر سے ہی الگ الگ بستروں میں سونے کی ہدایت کرتی ہے تاکہ وہ اخلاق رذیلہ اور بری عادات میں ملوث نہ ہوں۔سائل نے سوال میں بڑی عمر کے آدمیوں کے بارے میں جو اشارہ کیا ہے وہ بھی اس حدیث کے پیش نظر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مرد مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے اور نہ ہی عورت عورت کے ستر کی طرف دیکھے اور مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں جمع نہ ہو اور عورت عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں جمع نہ ہو“۔اس میں بھی یہ حکمت پیش نظر ہے کہ مرد وزن برائی سے محفوظ رہیں اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھیں کیونکہ جب خلوت اور ایک ہی بستر میں انہیں سونے کی جگہ ملے تو شیطانیت کا دروازہ کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔شریعت اسلامیہ نے اس دروازے کو بند کرنے کے لئے یہ تعلیم دی ہے کہ 10سال (جو شعوری عمر کی ابتداء ہوتی ہے )سے ہی یہ پابندی عائد کر دی جائے تاکہ برائی کے راستے مسدود ہو جائیں اس لئے ہمیں اس بات کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے اور اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سےہمکنار کرنے کے لئے پوری محنت اور تگ و دو سے کام لینا چاہئے۔