لا ہور (ویب ڈیسک) ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2016کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔گزشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغواگمشدگی اور جبری شادیوں کے4139کیس رجسٹر ہوئے اور یہ تعداد2015 کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہے ۔ 2016میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2127واقعات پیش آئے جبکہ 2017میں 1764واقعات رپورٹ ہوئے۔پولیس تک پہنچنے والے کیسز میں 76فیصد دیہی علاقوں میں جبکہ24فیصد شہری علاقوں کے تھے۔درندگی کا نشانہ بننے والے بچوں میں سے41فیصد لڑکے تھے اور اہم بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات پولیس تک پہنچتے ہی نہیں اس لئے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بن پاتے ۔گزشتہ برس بچوں کے خلاف کئے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ان میں اغوا کے 1455کیس،ریپ کے 502کیس،بچوں کے ساتھ بد فعلی کے 453کیس،گینگ ریپ کے 271کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362کیس سامنے آئے۔ان واقعات میں سنگین ترین جرم زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے رپورٹ کہتی ہے کہ جنسی حملوں کے بعد قتل کے کل 100واقعات سامنے آئے۔ادارے کی تحقیقات کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے مجرمان میں گھر کے اندر کے افراد ،رشتہ دار اور واقف کار بھی ہو سکتے ہیں۔قصور کی بات کی جائے تو اس شہر سے سال 2017کے ابتدائی 6ماہ میں10بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جن کی عمریں 5سے 10سال کے درمیان تھیں۔کچھ ہی عرصہ قبل بچوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات اور بعد ازاں ان کی ویڈیو بنا کران کو بلیک میل کرنے کا واقعہ بھی قصور میں ہی پیش آیا تھا ۔ اب ایک اور خبر کے مطابق چوکی انچارج صحافی کالونی محمد جاوید نے ایک گروہ کے دو نو عمر لڑکوں کو گرفتار کیا ہے جو مختلف جگہ سے کم سن بچوں کو ورغلا کر ان سے بداخلاقی کرتے تھے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز بلال بٹ نامی ایک نو عمرلڑکا صحافی کالونی میں چکر لگاتے ہوئے ایک کم سن بچے کو روک کر اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا رہا تھا جس کے ساتھ ایک کم سن بچی بھی موجود تھی دو نوں بچوں کے رونے کی آواز سن کر مقامی لوگ اکٹھے ہوگئے تو بلال بٹ نامی لڑکے نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں اپنی موٹر سائیکل پر دوڑ لگادی جسے چوکی انچارج نے قابو کرکے تفتیش کی تو بلال بٹ نے بتایا کہ وہ ایک دکان میجر نان شاپ کے مالک علی حسن کے پاس ملازم ہے جو کہ بد اخلاقی کا عادی ہے اور وہ یہ کام اس کے ساتھ بھی کرتا ہے اور اب اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ مختلف علاقوں سے کم سن بچے یا چھوٹی بچیاں لا کر میرے حوالے کرے تاکہ میں اپنی ہوس پوری کر سکوں اس کے بعد چوکی انچارج نے مقامی لوگوں کی موجودگی میں جب اس بات کا انکشاف کیا تو علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا بعدازاں چوکی انچارج نے اصل ملزم علی حسن کو بھی لیا دونوں کی تفتیش کی گئی جنہوں نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں چوکی انچارج نے دونوں ملزمان کو تھانہ ہربنس پورا کے حوالے کردیا ہے جہاں ان سے تفتیش جاری ہے اور ان کے خلاف قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔اعلی افسران نے چو کی انچارج کو اس گروہ کی گرفتاری کے لیے شاباش دی ہے۔