تحریر: لقمان اسد
شکوہ ان سے کیا کیجئیے کہ جو سوچ سمجھ کر محرومیوں کو زندہ یا قائم رکھنے کی منصوبہ بندی کرتے اور پسماندہ علاقوں کی پسماندگی کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہیں ملتان کی دھرتی اور خانوادہ سادات کے یہ فرزند اور سپوت ملک کے بڑے عہدے پر براجمان ہوئے تو ”تخت لاہور”کے ستائے ہوئے جنوبی پنجاب کے مایوس عوام کے بجھے دلوں میں عجیب ایک اُمنگ اور امید جاگ اُٹھی کہ اب سرائیکی وسیب ”تخت لاہور” کے جبر سے مکمل نجات اور آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیگا نصف صدی سے ”تخت لاہور”کے ظلم کا شکار سرائیکی خطہ کے باسیوں نے اس قدر سید یوسف رضا گیلانی سے امیدیں اور توقعات وابستہ کرلیں جیسے وہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ اب کوئی دکھ ، دُکھ نہ رہے گا اور کوئی غم ،غم نہ رہے گا نصف صدی سے بھی زائد کے عرصہ پر محیط سرائیکی خطہ کے باسی پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ اس طرح اپنی وابستگی کو قائم رکھے ہوئے ہیں جس طرح اس خطہ کے باسیوں کی تمام تر محبتوں،تمام تر عقیدتوں اور تمام تر تمنائوں کا محور اور مرکز صرف ذوالفقار علی بھٹو کی یہ جماعت ٹھہری ہو یہاں کے جیالوں اور مزدوروں نے بھی اس طرح اس جماعت کے جھنڈے کو اپنے سینے سے لگائے رکھا جس طرح لاڑ کانہ کی دھرتی کے باسیوں،کسانوں، مزدوروں اور ریڑھی بانوں نے پیپلزپارٹی کے پرچم کی محبت کو اپنے سینے سے کھبی نہ نکلنے دیا آمریت وطن عزیز پر مسلط رہی اور ضیائی دور آمریت میں چن چن کر شہید بھٹو کی اس جماعت کے کارکنان پر نفاذ اسلام کی آڑ میں باقاعدہ اشتہاری مہم چلا کر مجمع عام میں کوڑے برسانے کی ذلیل رسم کا آغاز کیا گیاتو بھی سرائیکی خطہ کے ”جیالے”جیل کی کال کوٹھڑیوں کی رونقوں کو دوبالا کرتے رہے،اپنی پیٹھوں پر کوڑے کھاتے رہے اور بے جرم جن کی زندگیاں تباہ ہوتی رہیں آمریت کا ہر جبر، ہر ظلم اور ہر ستم انہوں نے برداشت کرلیا مگر آمریت کا کوئی جبر ،کوئی ظلم اور کوئی انداز ستم ان کو پاکستان پیپلزپارٹی کی عقیدت ، محبت،کاز ،نظریے اور نصب العین سے دور نہ کرسکالیہ کی جس دھرتی پر آج سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی تشریف فرماہوئے ہیں اس دھرتی سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے بھی جبر کے ہر موسم میں پاکستان پیپلزپارٹی کی خاطر قربانیاں دینے میں کسی سے پیچھے ہرگز نہ تھے
ظفر زیدی،امان اللہ خان گڑیانوی ، مولاداد خان ، واحد بخش بھٹی(مرحوم)، مطلوب قریشی (مرحوم)،بابا سید موسی رضا شاہ ایڈووکیٹ(مرحوم)،افضال خان چانڈیہ(مرحوم)،سانول شاہ ،ملازم بھٹہ، عاشق بھٹہ،شفیع بھٹہ، پروفیسر نواز صدیقی (مرحوم )،کے نام ان جیالوں میں سرفہرست ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی ایک لمبی فہرست ایسے کارکنان کی ہے جنہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی محبت میں اپنی جوانیاں اپنا وقت اور اپنے جذبے اس پارٹی کی خاطر لٹادیے سید یوسف رضا گیلانی بلاشبہ میدان سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں وہ سیاست کے نشیب وفراز سے بخوبی آگاہ ہیں جب وہ وزیراعظم تھے تب بھی لیہ کی دھرتی پر انہوں نے حاضری دی یہ غالباً2010کی بات ہے سیلاب میں یہ علاقہ ڈوبا ہوا تھا وہ تب آئے تو وزیراعظم سے اور وزیراعظم کی حیثیت سے اس دھرتی کے لوگوں کے دکھ درد بانٹنے آئے تھے آج کا مگر ان کا یہ دورہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے ایک تنظیمی دورہ ہے بہت دکھ کی باتیں ان سے کرنا مناسب نہیں کہ خود بھی ان دنوں ایک بڑے کرب کا وہ شکار ہیں ان کے جواں سال بیٹے سید علی حیدر گیلانی کوطالبان نے 2013سے اغوا کررکھا ہے تاحال جن کی کوئی خبر تک نہیں اگر وہ اس صدمہ سے دوچار نہ ہوتے تو بہت کچھ باتیں ان کے سامنے رکھنے کی تمنا تھی وہ تنظیمی حوالے سے ضلع لیہ تشریف لائے ہیں تو اس حوالے سے ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ سب سے بڑا کام جو ان کے کرنے کا ہے وہ یہ کریں کہ اس وقت ضلع لیہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے موجودہ صدر سے وہ استعفی طلب کریں ان کے بڑے بھائی سردار بہادر احمد خان سیہڑ پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف کو جوائن کرچکے ہیں سید یوسف رضا گیلانی ضلع لیہ کے موجودہ پارٹی صدر سے یہ استفسار ضرور اس بابت کریں کہ پیپلزپارٹی نے انہیں کیا کچھ نہ دیا لیکن ہرمشکل وقت میں سیہڑ خاندان نے پیپلزپارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور فصلی بٹیروں کی طرح ابھرتے سورج کو سلام کرنے کا وطیرہ انہوں نے اپنایا سید یوسف رضا گیلانی کو یاد ہوگا اور مجھے جو معلومات میسر ہیں وہ یہ ہیں لندن میں 2008ء کے الیکشن کے حوالے سے ایک میٹنگ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ٹکٹوں کی تقسیم کی غرض سے طلب کی سید یوسف رضا گیلانی تب اس میٹنگ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو کروڑ کے حلقہ این اے 181کے لیے سردار بہاد احمد خان سیہڑ کو ٹکٹ دینے کی سفارش کرتے رہے لیکن محترمہ نے صاف انکار کردیا
اس لیے کہ انہیں وہ وقت یاد تھا جب پیپلزپارٹی پر کڑا وقت آن پڑا تو یہ خاندان پیپلزپارٹی کو خیر بار کہ کر ایک آمر کی چھتری کی چھائوں میں اقتدار کے مزے لوٹنے کی امیداور غرض سے جا بیٹھا مجھے کوٹ ادو کے ایک جیالے نے سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے یہ بتایا کہ 2013 کے الیکشن سر پر تھے اور سید یوسف رضا گیلانی کوٹ ادو میاں محسن قریشی (مرحوم)کے گھر تشریف لے آئے وہاں عوام کا ایک جم غفیر موجود تھا جو اس بات پر بضد اور اس فیصلے کا منتظر تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی میاں محسن قریشی(مرحوم) کے بیٹے کو پارٹی ٹکٹ دینے کا اعلان کریں گے اس لیے کہ کوٹ ادو کی اس سیٹ پر حلقہ کے عوام میاں محسن قریشی کے فرزند کی جیت کو یقینی تصور کرتے تھے اور اُن کی دیرینہ خواہش تھی کہ پیپلزپارٹی یہ ٹکٹ میاں محسن قریشی کے بیٹے کو دے مگر تب ایک بہت بڑا دھچکا وہاںپر موجود لوگوں کو لگا جب سابق وزیراعظم نے میاں محسن قریشی کے بیٹے کی بجائے اس حلقہ کیلئے ایک ایسے امیدوار کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا کہ الیکشن میں پھر جس کی ضمانت تک ضبط تک ہوگئی اگر سید یوسف رضا گیلانی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی سے واقعتاً مخلص ہیں تو وہ ہرروز پارٹی بدلنے والے مفاد پرستوں سے پارٹی کی جان چھڑواکر اپنے قائدین کے طرز عمل اور روایت پر چل کر پاکستان پیپلزپارٹی سے بھگوڑوں اور خودغرضوں کا صفایا کریںنظریاتی لیڈر شپ اور نوجوان جیالوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کریں کروڑ کے جس حلقے کا میں نے ذکر کیا ہے 2002ء کے الیکشن میں اسی حلقہ سے این اے کا ٹکٹ سیہڑ خاندان کو دینے کی بجائے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے ایک جیالے اور نظریاتی ورکر سید بابا موسی رضا شاہ ایڈووکیٹ کو دیا تھا حالانکہ محترمہ جانتی تھیں کہ اس حلقہ سے بہادر احمد خان سیہڑ ایک مضبوط امیدوار ہیں اور اگر انہیں پارٹی ٹکٹ دے دیا جائے تو وہ این اے کی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جو اپنے نظریاتی ورکروں کو ہمیشہ ترجیحی دیاکرتی تھیں انہوں نے ایک بے وفا سردار کی بجائے نظریاتی کارکن کو پارٹی ٹکٹ دیا
اس کے علاوہ بھی کئی ایسی مثالیں ہیں مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے جمشید خان دستی کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تب بھی مظفر گڑھ کیبہت سارے نواب زادے اور سردار اس ٹکٹ کو لینے کی آرزو رکھتے تھے مگر محترمہ نے ایک غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے جمشید خان دستی کو پارٹی ٹکٹ دیکر نظریاتی جیالوں کے دل جیت لیے آج سید یوسف رضا گیلانی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دوسرے قائدین کو اس پہلو پر ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی پارٹی کی تابناک اور روشن تاریخ کے ساتھ کیسا سلوک رورا رکھنے پر تلے ہوئے ہیں کہ جہاں نظریاتی ورکروں اور پارٹی جیالوں کوتو کوئی نہیں پوچھتاجب کہ مفاد پرستوں کے ٹولے کو ہرجگہ نوازاجا رہا ہے کچھ دوسری اہم باتیں جن کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہو ں وہ اس ضلع کی محرومیوں کے حوالہ سے ہیں لیہ کے عوام اب بھی سید یوسف رضا گیلانی کو ملک کا وزیراعظم گمان کرتے ہیں کل اگر ان کی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو بے شک وہ وزیراعظم نہ بھی ہوئے تو ان کا اپنا ایک وزن قد کاٹھ اور حیثیت ہے لیہ میں میڈیکل کالج کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پارلیمانی کلاس کے بچے تو نتھیا گلی میں بھی حصول تعلیم کیلئے با آسانی جاسکتے ہیں مگر یہاں کا غریب آدمی اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے سید یوسف رضا گیلانی سے یہ بھی گزارش ہے کہ لیہ تونسہ پل ضلع لیہ کے عوام کا ایک دیرینہ اور پرانا مطالبہ ہے جب وہ وزیراعظم تھے تو تب ضلع لیہ کے عوام اس پل کی تعمیر کے حوالے سے اُن سے بہت توقعات رکھتے تھے مگر شومئی قسمت اقتدار کے دنوں میں مخدوم صاحب اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس منصوبہ پر توجہ نہ دے پائے اور یہاں کے عوام کو تخت لاہور کے رحم کرم پر چھوڑنا انہوں نے مناسب سمجھا لیکن اب بھی اس ضلع کے عوام انہی کی پارٹی سے یہ توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا ہوسکے گا اس حوالے سے بھی انہیں ضرور اپنی پارٹی میں یہ بات رکھنی چاہیے ان کی خدمت میں یہ بھی عرض کرتا چلوں ضلع لیہ میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو جیالوں اور ورکروں نے زندہ رکھا ہوا ہے کہ جو ہر مشکل اور کھٹن وقت میں پارٹی کو زندہ رکھتے ہیں عبدالرحمن مانی ، شیخ خرم،شفیق میرانی، حسرت خان ،قاضی احسان ایڈووکیٹ، اسماعیل میرانی ،رانا حاکم علی عرف حاقو اور ذیشان حیدر شاہ شانی جیسے جیالے اور ورکران میں شامل ہیں۔محترم گیلانی صاحب !سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اب بھی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے تو انہیں کوئی فائدہ آپ وہاں سے پہنچاسکتے ہیں کیونکہ موجودہ سینٹ کے الیکشن میں بھی اس پورے سرائیکی خطہ اور جنوبی پنجاب کو آپ کی پارٹی نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا اور اقتدار کے دنوں میں بھی یہاں کے حقیقی جیالوں کو آپ کی جماعت اور آپ کچھ بھی نہ دے سکے،کچھ بھی۔
تحریر: لقمان اسد