تحریر : اختر سردار چوھدری
راجہ عزیزبھٹی کے والد رائو عبداللہ کاروبار کے سلسلے میں 1911ء میں ہانگ کانگ منتقل ہوگئے تھے اور وہاں پولیس میں ملازمت بھی کرتے تھے ساتھ ہی تعلیم وتدریس کے شعبے سے بھی منسلک تھے ۔ انہوں نے کوئنز کالج سے تین سالہ تدریسی کورس بھی پاس کیااور اپنے سکھ دوست سردار بشن سنگھ کے ساتھ مل کر ہندوستان کے بچوں کے لیے ایک نجی اسکول بھی قائم کیا۔راجہ عزیزبھٹی کے والد کے بعد ان کے بڑے بھائی نذیر احمد بھٹی بھی تعلیم ،مکمل کرنے کے بعد اسی سکول میں استاد کے عہدے پر فائز ہو گئے جہاںپر ان کے والد پڑھاتے تھے ۔ ۔راجہ عزیز بھٹی نے میٹرک تک سرامین کدوری اسکول ہانگ کانگ میں تعلیم حاصل کی بعد میں کوئنز کالج میں داخلہ لے لیا جبکہ ان کو انگلستان کی ایک یونیورسٹی نے اعلی تعلیم کے لئے وظیفے کی پیش کش بھی کی تھی۔
اسی زمانے میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی ۔1941 ء میں جاپان نے ہانگ کانگ پر قبضہ کر لیا اور اس ساتھ ہی راجہ عزیزبھٹی کے گھروالوں کے حالات اتنے ناساز گار ہو گئے کہ انہیںاپنے بڑے بھائی سردار محمد کے ساتھ مل کر معمولی سی ملازمت کر کے گھر چلانا پڑا مگرراجہ عزیزبھٹی مسلسل اپنی کوششوں میں لگے رہے اور ایک وقت آیا کہ ان کو اپنی بے پناہ قابلیت، محنت اور ذہانت کی وجہ سے بحری فوج میں ملازمت مل گئی۔ قیام پاکستان سے قبل ان کے خاندان نے ضلع گجرات کے گاؤں لدیاں میں رہائش اختیار کرلی۔
عزیز بھٹی 6 اگست 1928 ء کو ہانگ کانگ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948 ء کو پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ۔ 1950 ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولرکورس کی پاسنگ آوٹ پریڈ میں انہیں بہترین کارکردگی پرشہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزازکے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا گیا۔راجہ عزیز بھٹی 1952 ء میں اعلیٰ فوجی ٹریننگ کے لیے کینیڈا بھی گئے انہوں نے 1957 ء سے 1959 ء تک جی ایس سیکنڈ آپریشنز کی حیثیت سے جہلم اور کوہاٹ میں خدمات سر انجام دیں۔ 1960 ء سے 1962 ء تک پنجاب رجمنٹ جب کہ 1962 ء سے 1964 ء تک انفنٹری اسکول کوئٹہ سے وابستہ رہے ۔ انہوںنے جنوری 1965 ء سے مئی 1965ء تک سیکنڈ کمانڈر کے طورپر خدمات سرانجام دیں۔
6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ دشمن مسلسل حملے کیئے جارہا تھالیکن پھر بھی میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوان اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کے وقت دشمن نے اس سارے سیکٹر میں اپنی ایک پوری بٹالین کے ساتھ اچانک حملہ کردیا۔میجر عزیز بھٹی جب راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن نے اس وقت نے وہاں پر قبضہ کرلیا تھا تو انہوں نے ایک کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔
تیزی سے جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کے درمیان میں کھڑے رہے سامنا کرتے اور مقابلہ کرتے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے دوسری پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ جبکہ دشمن کی جانب سے چھوٹے ہتھیاروں’ ٹینکوں اور توپوں سے مسلسل آگ برسا ئی جارہی تھی مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف ان کا کا مقابلہ کرتے رہے بلکہ ان کے حملوں کا بہادری اور دلیری سے جواب بھی دیتے رہے۔
جنگ ستمبر جاری تھی کہ 12ستمبر کی صبح طلوع ہوئی تو میجر راجہ عزیز بھٹی (لاہور سیکٹر میں کمپنی کمان )نے دیکھا کہ دشمن کی فوج کے ہزاروں سپاہی برکی کے مقام سے شمال کی طرف درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ نہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عزیز بھٹی نے فائرنگ شروع کردی۔ جس سے وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ۔میجر عزیز بھٹی دوبارہ نہر کی پٹری پرچڑھ کر دشمن کی نقل وحرکت کا جائزہ لینے لگے کہ دشمن نے پھر بمباری شروع کردی۔ اپنے محاذ پرڈٹے عزیز بھٹی ہر خطرے سے بے نیاز دشمن کا مقابلہ کررہے تھے کہ ایک گولہ ان کے سینے کے آرپار ہوگیا۔ جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔انہوں نے ملک وقوم کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے سترہ پنجاب رجمنٹ کے اٹھائیس افسروں سمیت پانچ دن اور پانچ راتوں تک دشمن کے ہر وار کو ناکام بنائے رکھااور اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہو کر ایسا کارنامہ سرانجام دیا تھا کہ اکیاون برس بعد بھی ان کی بہادری کو سنہری حروف میں یاد کیا جاتا ہے۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔ وطن کی خاطر اپنی جان نثار کرنے پر میجر عزیز بھٹی کو پاکستان کا سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا، جو 23 مارچ 1966ء کو ان کی اہلیہ محترمہ زرینہ اختر نے وصول کیا۔
راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے ۔نشان حیدر کا اعزاز پانے والے میجر عزیز بھٹی شہید نے جرات و بہادری کی ایسی تاریخ رقم کی جو آدھی سے زائد صدی گزرنے کے باوجود قوم کو یاد ہے ۔ وطن پر جان نچھاور کرنے والے اس بہادر سپاہی کو آج بھی قوم عقیدت سے سلام پیش کرتی ہے ۔ واضح رہے کہ راجہ عزیز بھٹی شہید موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں بھی ہیں۔
میجر عزیز بھٹی شہید کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ہمیں ان سے سیکھنا چائیے اور ان کے نقش قدم پر چل کر خود کو محب وطن ثابت کرنا ہوگا کیونکہ سچ، اخلاق، اخلاص، ایمانداری اور وطن سے محبت دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں ہیں ،ان تمام طاقتوںسے مالامال ا نسان کو دنیاکی کوئی بھی طاقت اسے شکست نہیںدے سکتی۔وہ طن سے بے حد پیارکرتے تھے ، ہر وقت وطن کی خاطر اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کرنے کو تیار رہتے تھے ۔جب یہ سوچ دل میںآجائے گی تو اسے ایسی عقیدت اورمحبت ملے گی جورہتی دنیاتک زندہ رہے گی۔ میجر عزیز بھٹی اس دنیا سے تو چلے گئے مگر وہ اپنے کردار،جرات مندی اور بہادری کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آج تک زندہ ہیں۔
تحریر : اختر سردار چوھدری