ہڈیاں مضبوط کرنے میں ان دو غذائی عناصر کا بنیادی کردار ہے۔ کیلشیم ہماری ہڈیاں طاقتور بناتا جبکہ وٹامن ڈی کی بدولت کیلشیم انسانی جسم میں بہ سہولت جذب ہوتا ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں کی نشوونما میں بھی سودمند ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کو یہ دونوں غذائی عناصر ضرور لینے چاہئیں کیونکہ تب ہڈیاں بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ تاہم ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر بڑھاپے میں بیشتر مرد و زن ہڈیوں کی ایک بیماری ’’بوسیدگی استخوان‘‘ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس بیماری میں ہڈیاں رفتہ رفتہ نہایت کمزور ہوجاتی ہیں۔ تاہم انسان غذاؤں یا ادویہ کے ذریعے وافر کیلشیم اور وٹامن ڈی لے، تو ہڈیاں جلد بھربھری نہیں ہوتیں اور یوں ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
ماہرین طب کے مطابق ۵۰ سال کی عمر تک مردو زن کو روزانہ ۱۰۰۰ ملی گرام کیلشیم جبکہ ۲۰۰ عالمی یونٹوں کے وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ۵۰ سال سے زائد عمر کے مردوزن کے لیے لازم ہے کہ وہ روزانہ ۱۲۰۰ ملی گرام کیلشیم جبکہ ۴۰۰ سے ۶۰۰ عالمی یونٹ وٹامن ڈی استعمال کریں۔ ذیل میں ایسی غذاؤں کا ذکر ہے جن میں دونوں غذائی عناصر وافر مقدار میں ملتے ہیں۔ بازار میں ایسی گولیاں دستیاب ہیں جن میں کیلشیم اور وٹامن ڈی ہوتا ہے، تاہم ڈاکٹر غذاؤں میں موجود فطری غذائی عناصر کو ترجیح دیتے ہیں۔
دُودھ
دنیا کی تمام غذاؤں میں سب سے زیادہ کیلشیم دودھ ہی میں ملتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صرف ایک گلاس دودھ کیلشیم کی ۳۰ فیصد روزانہ ضرورت پوری کردیتا ہے۔ اگر یہ دودھ چکنائی سے پاک ہو، تو اچھا ہے کہ یوں انسان کو محض ۹۰ حرارے (کیلوریز) ملتے ہیں۔ مغربی ممالک میں اب دودھ میں بھی مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جا رہا ہے تاکہ اُسے زیادہ غذائیت بخش بنایا جاسکے۔
پنیر
پنیر دہی سے بھی زیادہ کثیف ہوتا ہے۔ اسی لیے اس میں سب سے زیادہ کیلشیم ہوتا ہے۔ اگر انسان محض ۵ئ۱ اونس پنیر کھالے، تو اُسے ۳۰ فیصد کیلشیم مل جاتا ہے لیکن پنیر ہضم کرنا کٹھن مرحلہ ہے، اسی لیے اُسے کثیر مقدار میں کھانے کی کوشش نہ کریں۔ پنیر کی معتدل مقدار ہی فائدہ پہنچاتی ہے۔پنیر میں وٹامن ڈی کی بھی معمولی مقدار ملتی ہے۔ تاہم وہ اس غذائی عنصر کی مطلوبہ ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ لہٰذا وٹامن ڈی کے معاملے میں محض پنیر پر بھروسا مت کریں۔
انڈے
گو ایک انڈہ ہمیں صرف ۶ فیصد وٹامن ڈی مہیا کرتا ہے، لیکن یہ ایک عام دستیاب غذاہے۔ پھر اسے پکانا بھی آسان ہے۔ واضح رہے کہ وٹامن ڈی زردی میں ہوتا ہے، لہٰذا جو مردوزن دو تین انڈے کھانا چاہیں، وہ سفیدی نہ کھائیں۔ یوں انھیں کم حرارے ملیں گے۔
ساگ
سبزیوں میں کیلشیم سب سے زیادہ ساگ میں ملتا ہے۔ چنانچہ جو افراد دودھ پینے کے شوقین نہیں، وہ ساگ سے مطلوبہ کیلشیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک پیالی ساگ ہمیں ۲۵ فیصد کیلشیم فراہم کرتا ہے نیز یہ سبزی ریشہ (فائبر)، فولاد اور وٹامن اے کی خاصی مقدار بھی رکھتی ہے۔
مالٹے کا رس
آج کل بازار میں مالٹے کے ذائقے والے ایسے ادویاتی رس دستیاب ہیں جن میں وٹامن سی کے علاوہ کیلشیم اور وٹامن ڈی بھی شامل ہوتا ہے۔ ان مشروبات میں وٹامن سی شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ غذائی عنصر بھی کیلشیم جسم انسانی میں جذب کراتا ہے ۔ چنانچہ اس کی غذائی اہمیت بھی مسلم ہے۔
دہی
وٹامن ڈی کے سلسلے میں قباحت یہ ہے کہ وہ بہت کم غذاؤں میں پایا جاتا ہے۔ یہ وٹامن بنیادی طور پر سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ کوئی انسان پندرہ بیس منٹ روزانہ دھوپ میں کھڑا ہو، تو اُسے وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار مل جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں مسئلہ یہ ہے کہ موسم سرما اور برسات کے دوران وہاں اکثر سورج نہیں نکلتا۔ چنانچہ وہاں ایسا دہی سامنے آیا ہے جس میں مصنوعی وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے۔ چونکہ دہی میں قدرتاً وافر کیلشیم ہوتا ہے، لہٰذا انسانی صحت کے لیے وہ سہ آتشہ بن گیا۔ اس خاص دہی کا صرف ایک پیالہ کیلشیم کی روزانہ ۳۰ فیصد جبکہ وٹامن ڈی کی ۲۰ فیصد ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام دستیاب دہی میں کیلشیم تو خاصا ملتا ہے، البتہ وٹامن ڈی کی بہت کم مقدار ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے یہ سوچ کر نہ کھائیے کہ وہ وٹامن ڈی کی مطلوبہ ضرورت پوری کر دے گا۔
مچھلی
سالمن، سارڈین اور ٹونا وہ سمندری مچھلیاں ہی جن میں وٹامن ڈی کثیر مقدار میں ملتا ہے، تاہم پاکستانی سمندروں میں یہ مچھلیاں کم ہی ملتی ہیں۔ گو ڈبوں میں دستیاب ہیں لیکن مہنگا ہونے کے باعث امیر لوگ ہی انھیں کھا سکتے ہیں۔ دیگر مچھلیوں میں وٹامن ڈی اتنا زیادہ نہیں پایا جاتا۔