تحریر: محمد امین طاہر
حوثی باغیوں نے یمن کے اکثر علاقوں پر امریکی سفارت خانے کے سوا پورے شہر پر قبضہ جما لیا۔اب امریکی سفارت خانے کو یہ ”استثنیٰ” کس بنیاد پر حاصل ہوا،۔ س کوجاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس ساری جنگ کے پیچھے امریکہ اور اس کے اتحادی ہیںاب تھوڑی نظر اس پر کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔معتبر اطلاعات ہیں کہ یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین شریفین کے گرد اپنے ١٣ اڈے قائم کرچکی ہے اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے مزید کوشاں ہے۔ دوسری خطرناک سازش کے تحت انہیں بحر احمر پر قبضہ کرنا ہے، اس لئے کہ بحر احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں’ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ عیسائی بادشاہ ابرہہ نے بحر احمر کو عبور کرکے بیت اللہ پر چڑھائی اور دہشت گردی کی ناپاک کوشش کی تھی جو قیامت تک عبرت کا نشان بن گیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت سے پہلے حبشہ سے جو کافر بیت اللہ پر حملہ آور ہوں گے وہ بھی بحر احمر سے گزر کر آئیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ:”ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بحرِ احمر ہمارے ہاتھوں میں ہوگا ،پھر یہ بحر ِیہودی یا بحرِ اسرائیل کہلائے گا۔”یہودیوں کے یہ تمام منصوبے اور سازشیں اسی منظم سازش کا حصہ ہیں جو وہ مکہ ومدینہ کے خلاف کرہے ہیں۔قبلہ اول کے بعد قبلہ ثانی کے خلاف خطرناک سازشوں میں مصروف ہیں ،مگر وہ پہلوں کی طرح منہ کی کھائیں گے۔ حرمین شریفین کے بعد بحرِ احمر پر قبضہ کرنا، اس کے ساتھ ساتھ کچھ سالوں سے سعودی عرب میں عیسائیوں کی طرف سے جن میں پاکستانی عیسائی بھی کافی تعداد میں شریک ہیں وہ جہاں حرمین شریفین کے خلاف یہودی سازشوں کو پروان چڑھا رہے ،وہاں وہ عرب مسلمانوں کو مرتد بنارہے ہیں’ ان سازشوں میں قادیانی بھی شریک ہیں’ خصوصاً پاکستانی قادیانی۔سعودی حکام نے جدہ میں دعیسائیوں کو عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ ریاض پولیس کا چھاپہ104 پاکستانی دو بھارتی عیسائی گرفتارکیا پوری دنیا سمیت پاکستانی قادیانیوں نے حج کے لئے اپنے اپنے گروپ بنائے ہیں۔ گذشتہ سال حج کے بعد جدہ سے100 سے زیادہ قادیانیوں کو گرفتار کیا گیا تھا ،اس کے بعد مکہ ومدینہ سے ان کے خفیہ اڈوں کا پتہ چلا تھا۔ ان سازشوں میں سے ایک سازش یہ بھی تیار کی گئی ہے کہ سعودی عرب کو تقسیم کیا جائے۔
گزشتہ دنوں امریکہ میں یہودی لابی میں یہ بحث زوروں پرتھی کہ سعودی عرب کو ٣ حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ١ـ ایک حصہ منطقہ شرقیہ جس میں دمام’ حفوف اور خطیب کے اہم شہر شامل ہیں، ۔ ٢ـ دوسرا حصہ ریاض اور جدہ سمیت حجاز کے دیگر علاقوں پر مشتمل ہو ،مکہ اور مدینہ کو ملاکر ایک خود مختاری ہو لی سٹیٹ بنائی جائے، جس کا کل رقبہ500کلو میٹر تجویز کیا گیا ہے۔ ٣ـ باقی جو علاقے بچے ہیں ان پر ایک الگ ریاست قائم کی جائے۔ 2002 ء ہفت روزہ سنڈے ٹائمز اسلام آباد نے اس سازش کو ے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے خانہ کعبہ پر حملہ کرکے اس کو (نعوذ باللہ) تباہ اور لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایاہے اور اخبار نے بتایا کہ اس سارے منصوبے کو تیار کرنے والے کا نام رچ لوری تھا اللہ کے گھر کے خلاف منصوبہ بنانے والے کا کیا حشر ہوااس کے بارے میں اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا کہ رچ لور ی پر ایسی بیماری مسلط کر دی گئی کہ اوھا یومیڈیکل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے رچ لوری کی اچانک بیماری کی اطلاع دیتے ہوئے کہا :اس کی بیماری کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ،اور وہ پاگل ہوکر مرگیا ۔تھوڑی سی نظر یمن کی موجودہ صورت حال پر دنیا نے دیکھا کہ حوثی قبیلہ کے جنگجو یمن کے دارالحکومت صنعاء پر قابض ہوئے اور یمنی وزیراعظم مستعفی ہوکرگھرجاچکا ہے,یمنی فوج کی ایک پوری ڈویڑن جوخفیہ طور پر پہلے سے قبائل کے زیراثرتھی نے ہتھیار ڈال کرحوثی قبائل کی بپا کردہ شورش میں ساتھ دینے اعلان کردیا ھے،یمن کے شہرصنعاء پر حوثی جنگجوؤں کے لشکر قابض ہوئے!صنعاء پر قبضے کے دودن بعدحوثی دہشت گردوں نے عالم اسلام کی عظیم علمی شخصیت شیخ عبدالمجید زندانی کے مدرسے جامع الایمان پر حملہ کیا۔اس حملے میں جامعہ کا سیکورٹی انچارج شہید ہوگیا، جب کہ شیخ عبدالمجید کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں، اس کے بعد حوثی قبائل اور ان قبائل کی پشت بناہی کرنے والے مسلح گروہ یہ اعلانات کر رہے ہیں کہ اب وہ مکہ اور مدینہ پر قبضہ کر کے سعودی عرب کو اپنے تسلط میں لے لیں گے ۔اور پھر کیا ہو گا ۔ساری امت مسلمہ کو معلوم ہے ۔کیونکہ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ اس کا اسلام و ایمان کا مرکز سعودی عرب ہے ۔سعودی عرب کے مقدس شہروں مکہ مکرمہ کی مسجد الحرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کو حرمین شریفین کہا جاتا ہے۔ مسجد الحرام کے درمیان بیت اللہ واقع ہے جس کی طرف رْخ کرکے دنیا بھر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے جہاں حج کی سعادت کے لیئے ساری دنیا سے بیک وقت سب سے زیادہ انسان جمع ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا جبکہ مدینہ منورہ میں قائم مسجد نبوی اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ان مقدس عبادت گاہوں کے خلاف سازشیں صدیوں پہلے بھی ہو رہی تھیں آج بھی ہو رہی ہیں۔ اْس وقت بھی یہود و نصاریٰ حرمین شریفین کو منہدم کرنے کے درپے تھے آج بھی ایسے ہی ناپاک ارادے ظاہر کر رہے ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ابرہہ نامی ایک عیسائی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لیئے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اْسکے مقابلے کے لیئے ابابیلوں (پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ اور اْسکے لشکر پر سنگ باری کرکے اْسے رہتی دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ صرف مذہبی جنون میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی دنیا کو بحر احمر کی بحری گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی حکمرانی کرتی تھی۔ اسلام سے قبل چوں کہ خانہ کعبہ عربوں کا ثقافتی اور مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اقتصادی چیمبر آف کامرس بھی تھا اس لیئے منہدم کرنے کے لیئے بڑے جواز کے طور پر ابرہہ نے پہلے یمن میں قائم گرجا گھر کو خود ہی تباہ کیا اور پھر اسکا الزام عربوں پر لگا کر اسلام سے پہلے بیت اللہ کو مٹانے کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا لیکن وہ بیت اللہ کو تباہ کر سکا اور نہ ہی اسلام کو مٹا سکا۔ دنیا کے پرامن ترین مذہب اسلام اور مسلمانوں کی عبادت گاہ خانہ کعبہ کو مٹانے کے لیئے یہود و نصاریٰ آج ایک بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کے لیئے سرگرداں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری مرتبہ نور الدین زنگی کو ابابیل بناکر بھیجا اور نور الدین زنگی نے ان یہودیوں کو گرفتار کر کے ان کا سر تن سے جدا کر دیا جو نبیء رحمت کے روضہ مبارک تک رسائی حاصل کر چکے تھے اور آ پ کے جسم اطہر کو نقصان پہنجانا چاہتے تھے، تیسری مرتبہ اللہ تعالیٰ نے ابابیل پاکستان سے بھیجے 1979 میں عبداللہ حامد محمد القحطانی نے بیت اللہ پر قبضہ کر لیا۔
پاکستان کے فوجی جرنل ضیاء الحق نے ابابیل بھیجنے کی پیشکش کی ۔ابابیل کے اس دستے کی کمان سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے کی جو اس وقت پاکستانی گوریلا فوج میں میجر کی حثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔اور دنیا نے دیکھا کہ میجر پرویز مشرف نے ایسا کامیاب اپریشن کیا کہ دنیا اس دن سے پاکستان کی فوجی صلاحیتوں کو مان گئی تھی ۔بغیر کسی نقصان کے یہ اپریشن مکمل کیااور بیت اللہ کو باغیوں سے آزاد کرایا ۔اب پھر اللہ تعالیٰ نے حرمین کی حفاظت اور دفاع کی ذمہ داری پاکستانی ابابیل کے سپرد کی ہے۔اور انشاء اللہ یہ سپوت مکہ اور مدینہ کی حفاظت فرمائیں گے۔مسلمانوں اور ان کے روحانی مراکز کے خلاف یہودونصاریٰ کی ذہنی پسماندگی کیا ہے ذرا جائزہ لیں۔ امریکہ جو دنیا کو مذہبی رواداری کا سبق سکھانے والا ملک ا پنے فوجیوں کو باقاعدہ تربیت دیتا ہے کہ اْسکے اصل دشمن دہشت گرد نہیں بلکہ اسلام ہے جس سے حتمی جنگ کے لیئے انہیں ہر وقت تیار ہونا ہوگا اور اس مقصد کے حصول کے لیئے وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ایٹمی حملے کرنے سمیت خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو منہدم کرنے کا ناپاک ارادہ بھی ظاہر کر چکا ہے۔ اس خفیہ کورس کا انکشاف گزشتہ ماہ ہی ہو گیا تھا ور اس سارے معاملے کا انکشاف کرنے والی ایک امریکی ویب سائٹ کے مطابق اس تربیتی کورس میں شرکت کرنے والے فوجی افسران اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے ہیں جنہیں باقاعدگی سے یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ عنقریب مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ ہو سکتی ہے اور اس جنگ میں (نعوذ باللہ) دْنیا کے پرامن ترین شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر ایٹمی حملوں سمیت مسلمانوں کی مقدس عبادت گاہوں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو بھی نیست و نابود کر دیا جائیگا۔ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو غیر مہذب اور انسانیت کا دشمن قرار دینے اور اسلام کے مقدس ترین مقامات کو تباہ کرنے کے لیئے ورغلانے کے شرانگیزمنصوبوں کے منظرعام پر آنے کے بعد گویا امریکی وزارتِ دفاع حیران و ششدر دکھائی دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ ماضی میں بھی اسکے ادارے اور تنظیمیں اسلام جیسے پْرامن مذہب کے خلاف اس قسم کے پروپیگنڈہ کا حصہ بن چکے ہیںمکروہ چہرہ ایک بار پھر بے نقاب ہو گیا ہے۔
امریکی عزائم پر نظر ڈالیں تو اسکے ظلم و ستم کا محور ہمیشہ مسلمان ہی رہے ہیں اور اس نے مسلم ممالک کو ہی تخت و تاراج کرنے کی بات کی ہے۔ یہاں تک کہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے نعوذ باللہ خانہ کعبہ پر حملے کرنے کی بات کہہ ڈالی تھی۔ اسکے علاوہ ری پبلکن اْمیدوار ٹام ٹین کریڈو بھی اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکا پر ایٹمی حملے کی صورت میں مکہ اور مدینہ پر جوابی حملوں کی دھمکی دے چکے ہیں جبکہ بارک اوباما بھی اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اب اگر امریکا پر نائن الیون جیسا حملہ ہوتا ہے تو اسے خانہ کعبہ پر بمباری کر دینی چاہئے۔ گو اس وقت اوباما صدر نہ تھا لیکن صدارتی انتخاب کے لیئے پَر تول رہا تھا اور یہ دھمکی اس کی انتخابی مہم کا حربہ تھی جس کے ذریعے وہ امریکا کے صلیبی صیہونی ٹولے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے فوج کو حکم دیا ہے کہ شام پر مغربی ملکوں کے حملے کی صورت میں سعودی عرب پر حملہ کر دیا جائے۔ کریملن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ روسی صدر نے فوج کو ”ارجنٹ ایکشن میمورنڈم”جاری کیا جس کے تحت شام پر حملے کی صورت میں سعودی عرب پر حملے کا حکم دیا گیا تھا۔ عالمی میڈیا کی ایک رپورٹ میں جس میں کہا گیا ہے کہ معروف عالمی کتاب ” اوبامہ وار” میں واضح لکھا ہے کہ سال 2014ـ15ء کے دوران پاکستان کو ہر صورت ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا ہے کیونکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اہل یہود کیلئے خطرے کی علامت ہے۔ عرب سپرنگ تحریک بھی درحقیقت مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ایک سازش تھی تاکہ بتدریج پورے مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کا کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔
ناسا کے مطابق سال 2014ـ15ء میں چار خونی چاند گرہن ہونے ہیں جن کو بلڈ مون بھی کہا جاتا ہے اس سلسلے کا پہلا خونی چاند گرہن 15 اپریل کو لگ چکا ہے اور دوسرا بلڈ مون 8 اکتوبر کوپچھلے سال لگا۔ اگلے دو بلڈ مون 2015ء میں ہونگے جن میں سے ایکاسی ہفتے 4 اپریل اور دوسرا اور آخری 28 ستمبر 2015ء کو لگے گا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 صدیوں کے دوران ایسے خونی چاند گرہن صرف تین بار وقوع پذیر ہوئے ہیں اور ہر بار یہودیوں کے مذہبی تہوار جاری تھے۔ آئندہ خونی چاند گرہن بھی یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے درمیان آرہے ہیں جس کے بارے میں یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ بلڈ مون کے بعد دنیا میں ہماری بادشاہت قائم ہوگی اگرچہ اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑی جائے گی لیکن اسرائیل ہی فاتح ہوگا اس سلسلے میں یہودی آج دیوار گریہ پر دعائیں مانگ رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ پر حالیہ بمباری مسلمانوں کیلئے ٹیسٹ کیس تھا کیونکہ اسرائیل کا اصل ہدف مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا اور ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے سامنے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں ‘ اس منصوبے کے تحت اسرائیل دریائے نیل تک مصر ،ردن ، شام ، لبنان ،عراق ،ترکی کے جنوبی علاقے اور حجاز تک کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے یہودی منصوبے کے مطابق اس کا نام بعد میں تبدیل کرکے بحریہود رکھا جائیگا۔ یہودی لابی قبلہ اول کے بعد قبلہ آخر کے خلاف خطرناک سازشوں میں مصروف ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس پس منظر میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور عسکری مضبوطی ضروری ہے ، سول ¾ ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سیاسی انتشار خطرناک ہوسکتا ہے اور عالمی سازشی عناصر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ان حالات میں پاکستان نے جو فیصلہ کیا ہے ۔وہ بڑا سوچ سمجھ کر کیا ہے۔آخر میں ان صاحب الرائے لوگوں کے لیے عرض ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو یمن کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف فوج کشی پر صرف سفارتی کردار ادا کرنا چاہیے ۔اور مذاکرات پر لانا چاہیے ان کے لیے عرض ہے کہ پہلے تو جس طرح ہتھیار اٹھانے والے پاکستانیوں کو ناقابل قبول ہیں اسی طرح ان کو چاہیے کہ وہ یہ اصول یمنی باغیوں کے بارے میں بھی اپلائی کریں۔یہ تو حقیقت ہے کہ مسلمان آ ج جو کاٹ رہے وہ ان کے اپنے ہاتھوں کا بویا ہوا ہے۔لیکن اب یہ وقت ایک دوسرے کی غلطیاں ثابت کرنے کا نہیں ۔امت کو فتنے سے بچانے کا ہے۔ پاکستان ملسل کئی عشروں سے ان ممالک کے درمیان صلح جوئی کا کردار ادا کر رہا ہے۔اور افواج پاکستان نے مسلم ممالک کے درمیان ہم اہنگی کے لیے ایک گمنام اور اہم ترین کردار ادا کیا ہے لیکن جن کے لیے کردار ادا کیا وہی بے وفا نکلے اور پاکستان کے ایک صوبے کو وفاق کے خلاف اکسانے میں ان ہمسایہ قوتوں کا ایک گھنوء نا کردار ہے ۔پاکستان نے ہمیشہ پردہ پوشی کی ہے ۔لیکن اب معاملہ ملکوں کا نہیں یہ سازش مکے اور مدینے کا خلاف ہے ۔جب تک مکہ اور مدینہ محفوظ رہیں گے ،مسلمان محفوظ رہیں گے ۔ہمارے ملک بھی محفوظ رہیں گے۔دعا یہی کریں کہ یمن والا معاملہ جلد از جلد نمٹ جائے۔ورنہ یہ آگ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
تحریر: محمد امین طاہر