تحریر : مہر بشارت صدیقی
ملالہ یوسفزئی نے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے شوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے۔ 9 اکتوبر 2012 کو ملالہ سکول جانے کے لئے بس پر سوار ہوئی۔ ایک مسلح شخص نے بس روک کر اس کا نام پوچھا اور اس پر پستول تان کر تین گولیاں چلائیں۔ ایک گولی اس کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔ حملے کے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہی اور اس کی حالت نازک تھی۔ تاہم جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال کو بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔ 12 اکتوبر کو پاکستانی 50 مذہبی علماء ملالہ کے قتل کی کوشش کے خلاف فتویٰ دیا۔ تاہم کئی پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ سی آئی اے نے کرایا تھا اور اس بارے سازشی نظریات پائے جاتے ہیں۔اس قاتلانہ حملے کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی طور پر ملالہ کی حمایت میں اچانک اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ کے عالمی تعلیم کے نمائندے گورڈن براؤن نے اقوامِ متحدہ کی ایک پٹیشن بنام “میں ملالہ ہوں” جاری کی اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر کے تمام بچوں کو 2015 کے اواخر تک سکول بھیجا جائے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار تعلیم کے حق کا بل منظور ہوا۔ 29 اپریل 2013 کو ملالہ کو ٹائم میگزین کے اولین صفحے پر جگہ ملی اور اسے دنیا کے 100 با اثر ترین افراد میں سے ایک گردانا گیا۔ ملالہ پاکستان کے پہلے یوتھ پیس پرائز کی وصول کنندہ ہے۔12 جولائی 2013 کو ملالہ نے اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں خطاب کیا اور مطالبہ کیا کہ دنیا بھر میں تعلیم تک رسائی دی جائے۔ ستمبر 2013 میں ملالہ نے برمنگھم کی لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا۔ ملالہ کو 2013 کا سخاروو انعام بھی ملا۔ 16 اکتوبر 2013 کو حکومتِ کینیڈا نے اعلان کیا کہ کینیڈا کی پارلیمان ملالہ کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دینے کے بارے بحث کر رہی ہے۔ فروری 2014 کو سوئیڈن میں ملالہ کو ورلڈ چلڈرن پرائز کے لئے نامزد کیا گیا۔ 15 مئی 2014 کو ملالہ کو یونیورسٹی آف کنگز کالج، ہیلی فیکس کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ دی گئی۔10 اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور کم عمر افراد کی آزادی اور تمام بچوں کو تعلیم کے حق کے بارے جدوجہد کرنے پر 2014 کے نوبل امن انعام دیا گیا جس میں ان کے ساتھ انڈیا کے کیلاش ستیارتھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو 1979 میں طبعیات کے نوبل انعام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری پاکستانی بن گئی ہے۔ناروے کے شہراوسلومیں منعقدہ رنگارنگ تقریب میں ملالہ یوسف ز ئی اور بھارتی سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی کو نوبل انعام کے اعزازسے نوازاگیا اس موقع پر ملالہ کے اہلخانہ سمیت نامورشخصیات موجود تھیں پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی اورکیلاش ستیارتھی کاتقریب میں آمد پرپرتپاک استقبال کیاگیا پاکستانی گلوکاروں راحت فتح علی، سردار علی ٹکر اور بھارت سے سرود نواز استاد امجد علی خان نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیاتقریب کے آغاز میں نوبیل کمیٹی کے چیئرمین تھور جان جیگ لینڈ نے اپنے خطاب میں ملالہ یوسفزئی اور کیلاش ستیارتھی کو امن کا علمبردار قرار دیتے ہوئے کہاکہ کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی امن کے پیامبر ہیں۔
ملالہ نے امن انعام کے ساتھ ملنے والی رقم اپنے آبائی علاقے سوات اور شانگلہ میں سکولوں پر خرچ کرنے کا اعلان بھی کیا تھانوبیل کی انعامی رقم 14 لاکھ ڈالر کے قریب ہے جو ملالہ یوسفزئی اور کیلاش ستھیارتھی میں برابر تقسیم کی جائیگی ملالہ ماہر طبیعات ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد دوسری پاکستانی شہری ہیں جنھیں نوبیل انعام سے نوازا گیا صدر مملکت ممنون حسین وزیر اعظم نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت پاکستان بھر کی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے پر ملالہ یوسف زئی کومبارکباد پیش کی صدر مملکت ممنون حسین نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ کو امن کا نوبل انعام ملنے پر یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستانی تعلیم سے محبت کرتے ہیں، ملالہ یوسف زئی قوم کی قابل فخر بیٹی ہے جس پر پوری قوم کو ناز ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے امن کا نوبل انعام ملنے پر ملالہ یوسف زئی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کی تعلیم کے بارے میں ملالہ یوسف زئی کا خواب پورا ہوا ہے۔ ملالہ یوسف زئی دنیا بھر کیلئے پاکستان کی جانب سے امن کی سفیر ہے جس نے بچیوں کی تعلیم کے فروغ کیلئے آواز بلند کی۔
ملالہ کوتو نوبل انعام ملنے پر صدر ،وزیراعظم بیانات دے رہے ہیں لیکن پاکستان کی ایک اور بیٹی بھی ہے جس کانام ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جو امریکی قید میں بے گناہ اپنی زندگی کے ایام گزار رہی ہے۔امریکی سفاکی کا شکار ڈاکٹر عافیہ اپنوں سے ہزاروں میل دور اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھوں اوراداسیوں کے سائے میںہے. دو مارچ انیس سو بہتر میں کراچی میں پیدا ہونے والی عافیہ صدیقی نے ابتدائی تعلیم کے بعد انیس سو نوے میں امریکہ میں سکونت اختیار کرلی، دوہزار ایک میں امریکی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ دوہزار تین میں وطن واپس آگئی، اسی سال مارچ میں عافیہ صدیقی پر القاعدہ رہنما خالد شیخ محمد سے رابطوں کا الزام لگا۔. دوہزار تین میں عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجی پر حملے کے الزام میں گرفتار کرکے امریکہ پہنچادیا گیااور اسے دوہزار دس میں چھیاسی سال قید کی سزا سنادی گئی جوسراسر نا انصافی پر مبنی تھی۔دوران قید عافیہ صدیقی پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ ایک ماں کو نہ صرف اپنے بچوں سے دور کردیا گیا بلکہ وہ حواس تک کھوبیٹھی۔امریکہ نے قوم کی ایک بیٹی کو 86برس کی سزا سنائی لیکن پاکستانی حکمرانون کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی۔نواز شریف آئے تو انہوں نے بھی کہا تھا کہ ہم عافیہ کو پاکستان لائیں گے لیکن ابھی تک ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ ایسا نہیں کر سکے۔ابھی چند دن قبل انسانی حقوق کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا گیا لیکن ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے امریکی مظالم کسی کو نظر نہین آئے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن کی رہائی کیلیے عالمی سطح پر تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صرف تسلیاں دے رہی ہے۔
حکمران اگر اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں تو وہ سب سے بڑے بے وقوف ہیں۔ حکومت کی جانب سے اور ہماری پاکستانی ایمبسی کی جانب سے اقدامات نہیں ہو رہے ہم روزانہ کی بنیادوں پر ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمیں کچھ جواب نہیں دیا جاتا۔ وزیر اعظم اور ان کی صاحبزادی صرف سیاسی بیانات جاری کر رہے ہیں عملی اقدامات نہیں لہذا ہم ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے عالمگیر تحریک کا آغاز کریں گے۔اسوقت پاکستان میں مفادانہ سیاست ہو رہیہے۔کوئی دھاندلی،کوئی مہنگائی،کوئی کرپشن ،کوئی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ہر کسی کا اپنا اپنا منشور ہے لیکن سلام ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو جس نے دن رات عافیہ کی رہائی کے لئے تحریک چلائی،حکمرانوں سے ملیں،سیاستدانوں سے ملیں،منبر و محراب کے وارث علماء کے آگے ہاتھ پھیلائے لیکن میری اس بہن کو صرف تسلیاں ملیں ۔وہ آج بھی عافیہ کیا رہائی کی منتظر ہے۔رات سونے سے قبل وہ سوچتی ہے کہ کاش ایسا ہو جائے کہ میں جب صبح بیدار ہوں تو عافیہ میرے ساتھ ہو لیکن ایسا تب تک نہیں ہو سکتا جب تک بے ضمیر، بے حس حکمران موجود ہیں۔
تحریر : مہر بشارت صدیقی