انتہائی افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ وطن عزیز کا پڑھا لکھا طبقہ بھی اب تک جہالت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ تبھی تو ہمارا نوجوان سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی خودساختہ اور بےبنیاد جعلی خبروں پر یقین کرتے ہوئے انہیں آگے پھیلانے کی جستجو لیے، برضا و رغبت اس گناہ کبیرہ کا حصہ بن رہا ہے جس کی اسلام میں بھی ممانعت ہے۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(لوگوں کےبارےمیں) اچھا گمان رکھنا، بہترین عبادتوں میں سے ایک ہے۔‘‘ (بحوالہ: ابوداؤد، عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
ایک اور حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’جب مجھے معراج ہوئی تو (اس سفر میں) میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سرخ تانبے کے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ نوچ کر زخمی کر رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔ جبرائیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے (یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے حتی کہ ان پر جھوٹی تہمتیں بھی لگایا کرتے) اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے۔‘‘ (بحوالہ: سنن ابی داؤد)
بدقسمتی سے ہم تو وہ مسلمان ہیں جو حضور نبی کریمﷺ کے نام سے، رحمت اللعالمین سے منسوب کرکے، جھوٹی گستاخیاں جوڑ کر لوگوں کی زندگیاں زحمت بنا دیتے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر ثابت کرتے ہیں کہ اسلام امن، محبت، بھائی چارے اور عفو و درگزر کا مذہب نہیں بلکہ (نعوذ باللہ) قتل و غارت اور دہشت گردی کا نام ہے۔ بالآخر پھر جب کوئی شخص اپنے ملک و مذہب سے منسوب کی جانے والی غلط چیزوں کے خلاف کھڑا ہوکر روشن چہرہ دکھانے کی کوشش میں دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں اور ہمارے دین میں صبر و استقامت، امن، محبت، سلامتی اور بھائی چارے کے ساتھ ساتھ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، وہ کیسے دہشت گردی وغیرہ کی ترغیب دے سکتا ہے؟ جو مذہب فضول پانی بہانے تک کی ممانعت کرتا ہو، بھلا وہ کسی کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟
دین کے نام نہاد ٹھیکیدار حقیقی معنوں میں ہمارے مذہب کو بدنام کررہے ہیں جن کے خلاف بولنے کی پاداش میں موت کو گلے لگانا پڑ جاتا ہے۔ اگر کوئی معجزاتی طور پر بچ جائے، جس کے بعد پوری دنیا اس کی بہادری کے اعتراف میں انعامات کے ذریعے اس کی حوصلہ افزائی کرے، تو علم سے خائف اور عقل سے عاری طبقہ بیہودہ الزامات لگانا شروع کردیتا ہے تاکہ اس شخص کو عوام میں متنازعہ بنادیا جائے جس نے دنیا بھر میں پاکستان کا خوبصورت اور روشن چہرہ سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
لیکن یہاں پر میں جھوٹے الزامات لگانے والوں سے خفا نہیں کیونکہ ان کا یہی کام ہے۔ مجھے دکھ تو اپنی اس نئی نسل پر ہے جو مجال ہے کہ ذرّہ برابر بھی تحقیق کی زحمت کرلے کہ آیا پھیلایا جانے والا مواد سچ کے ترازو پر کھرا اترتا بھی ہے یا نہیں؟
اسی طرح صحافت جیسے عظیم اور مقدس پیشے میں بھی کالی بھیڑوں کی کمی نہیں۔ جن کےلیے صحافت مقدس نہیں بلکہ صرف ایک پیشہ ہے اور ایسے قلم فروش و پیشہ ور شعبہ صحافت میں ایک ناسور ہیں جن میں کچھ حضرات کا تو یہ معیار ہے کہ اگر آج آپ کسی نام نہاد صحافی کی کال نہ اٹھائیں، چاہے وہ کسی مجبوری یا مصروفیات کی وجہ ہی سے کیوں نہ ہو، تو کل کے اخبار میں آپ کے خلاف ایک عدد کالم یا آپ کی شخصیت کے مطابق خبر لگی ہوگی۔ اگر آپ بہت مشہور ہیں تو پھر سپر لیڈ کی توقع رکھیے وگرنہ دو یا تین کالمی خبر تو ضرور ہوگی۔ اب یہاں پر قارئین کو چاہیے کہ خود بھی اس کی چھان بین کرلیں کہ یہ کتنا سچ ہے؟
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب۔ ملالہ یوسفزئی کی تعلیمی کاوشوں کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوتی ہے، لیکن اگر نہیں ہوتی تو وہ ہے ان کا اپنا دیس پاکستان جہاں چند افراد شاید نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے بھی علم حاصل کرکے دنیا جہان میں پاکستان کا نام روشن کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی ایجوکیشن کمپین سے خائف ہیں اور انہوں نے اس بغض میں حقائق کو اس قدر غلط انداز سے پیش کیا کہ ایک معصوم بچی کے خلاف پورا ایک طبقہ تیار کرلیا جو آئے روز کہتا تھا کہ یہ اب کبھی بھی وطن واپس نہیں آسکتی۔ لیکن اس جھوٹ سے بھرے غبارے کی ہوا اس وقت نکل گئی جب ملالہ یوسفزئی اپنے خاندان سمیت چار روزہ دورے پر پاکستان واپس پہنچی۔
اس وقت یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ انہیں اس قدر حوصلہ افزائی اور پیار ملے گا کیونکہ یہ سب اس سوشل میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف کمپین کے برعکس تھا۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ بجائے ندامت اور خوش آمدید کہنے کے، اس معصوم بچی کو نہ بخشتے ہوئے، من گھڑت الزامات لگاتے رہے۔ اب ان الزامات کی حقیقت بھی جان لیجیے۔
’’14 اگست 1997 یوم آزادی کے دن پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر ملالہ یوسفزئی کے والد نے سیاہ پٹی باندھ کر یوم سیاہ منایا (مہذب معاشروں میں احتجاج کرنے کا اصولی طریقہ بھی یہی ہے نہ کہ ہماری طرح جلاؤ گھیراؤ کرکے اپنے ہاتھ سے اپنے ہی ملک کے لوگوں کا نقصان کرڈالیں) جس پر انہیں جیل کے ساتھ جرمانہ ہوا۔‘‘
الزامات لگانے والے اصل حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خاندان اس بنیاد پر اینٹی پاکستان ہے۔ لیکن اس کے اصل محرکات کوئی بھی بیان نہیں کرتا۔ درحقیقت ضیاء الدین یوسفزئی کے دوست احسان الحق حقانی نے، جو ایک معروف صحافی اور اب بھی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، اس روز ایک احتجاجی کیمپ منعقد کیا جس کا مقصد اس وقت کی حکومت پر اپنے حقوق کےلیے دباؤ ڈالنا تھا کیونکہ ان دنوں ناقص سہولیاتِ صحت کے باعث کئی بچے موت کی نذر ہوگئے تھے، اور بچوں کی تعلیم تو بالکل بھی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ بھوک، افلاس و بیروزگاری عروج پر تھی جس کی وجہ سے انہوں نے حقانی کے حکومت مخالف احتجاجی کیمپ میں شرکت کرکے احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھی تھیں کیونکہ یہ اپنے آئینی حقوق کے حصول کےلیے جدوجہد کررہے تھے۔ تاہم اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر، مقامی پولیس کے ہمراہ ان کے کیمپ میں تشریف لائے اور انہیں منتیں کرکے تھانے لے گئے تاکہ جشن آزادی کے جلوس میں سے کوئی شخص انہیں نقصان نہ پہنچادے۔ بعدازاں باعزت طریقے سے واپس چھوڑ دیا گیا لیکن جیل جانے اور جرمانہ کرنے والی بات محض ایک جھوٹ ہے۔
ایک اور سفید جھوٹ یہ بھی ہے کہ ضیاء الدین یوسفزئی نے ملعون سلمان رشدی کی تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ (سیٹینک ورسز) کو آزادی اظہار کہا تھا جو بالکل ہی غلط اور بے بنیاد بات ہے کیونکہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا۔ حقیقت جاننے کےلیے کتاب ’’میں ہوں ملالہ‘‘ (صفحہ نمبر 67/68) ضرور پڑھ لیجیے گا۔
1989 میں جب سلمان رشدی کی تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ کے خلاف مظاہرے زور شور پر تھے تو ضیاء الدین یوسفزئی جس کالج میں زیرتعلیم تھے اس میں کھچاکھچ بھرے ہوئے کمرے میں گرما گرم مباحثہ منعقد ہوا اور بہت سے طالب علموں کا خیال تھا کہ کتاب پر پابندی لگنی چاہیے اور اسے جلادینا چاہیے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ خود ضیاء الدین یوسفزئی کا نقطہ نظر بھی کتاب سے متعلق یہی تھا کہ یہ اسلام کےلیے موجب دل آزاری ہے، لیکن انہوں نے اضافی طور پر ایک تجویز بھی پیش کی اور کہا: ’’اول تو یہ کتاب ہمیں پڑھنی چاہیے اور پھر کیوں نہ ہم اس کے جواب میں اپنی کتاب لکھیں۔‘‘ یعنی علم کا جواب علم سے دینا چاہیے اور آئین و قانون کے تحت سب کچھ کرنا چاہیے نہ کہ ہم اپنی ہی عوام کو تکلیف میں ڈال کر اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچائیں۔ پھر آخر میں ایک خوبصورت بات کہی: ’’کیا ہمارا دین اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ اپنے خلاف ایک کتاب برداشت نہیں کرسکتا۔ نہیں، میرا اسلام ایسا نہیں!‘‘ درحقیقت یہ بات کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت طالب علم شدید اشتعال میں تھے اور وہ کچھ بھی کر گرزتے جس سے صرف اور صرف اپنا ہی نقصان ہوتا۔
واضح رہے کہ جب ایک انگریز ولیم مور نے، جو مشترکہ پنجاب کا گورنر تھا، ’’دی لائف آف محمد‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تو اس کے جواب میں سرسید احمد خان نے بھی ’’خطبات احمدیہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس کی دشنام طرازیوں کا تفصیل سے جواب دیا گیا تھا۔
جولائی 2009 میں امریکا کی طرف سے افغانستان اور پاکستان کےلیے مقرر کردہ نمائندہ خصوصی رچرڈ ہال بروک، سیرینہ ہوٹل اسلام آباد میں وزیرستان اور سوات سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیز سمیت کچھ سول سوسائٹی کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں جن میں ملالہ اور ان کے والد کو بھی امتیاز نامی (صحافی) دوست بلوا لیتا ہے کیونکہ وہ ان کے دفتر میں کام کرتا تھا۔ یہ ملاقات کوئی چوری چھپے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس میں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ لیکن ہمارے کچھ کم ظرف لوگوں نے اس ملاقات کی ایک تصویر نکالی اور ملالہ فوبیا میں آکر جھوٹ کی انتہاء کرتے ہوئے اس میں موجود سماجی خاتون شاد بیگم کو ملالہ کی والدہ یعنی تورپکئی قرار دے دیا اور رچرڈ ہال بروک کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے عام لوگوں میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ جیسے ملالہ خاندان پہلے سے سی آئی اے سے ملا ہوا تھا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں اور نہ ہی پاؤں۔ اس کی حقیقت جاننے کےلیے میٹنگ میں شریک شاد بیگم سمیت متعدد لوگوں سے میں نے بذاتِ خود رابطے کیے جن سے معلوم ہوا کہ یہ ملاقات بہت سارے لوگوں کی موجودگی میں ایک ساتھ ہوئی نہ کہ بطور خاص ملالہ سے، کیونکہ وہ تو انہیں ملاقات سے قبل جانتے تک نہیں تھے۔ یاد رکھیے کہ رچرڈ ہال بروک وہ انسان تھے جنہوں نے بوسنیا کی جنگ کی روک تھام میں مسلمانوں کےلیے ایک مثالی کردار ادا کیا تھا۔ اگر یقین نہ آئے تو تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے۔