تحریر : عظمیٰ شاہ
کرہ ارض پر موجودہ ہر شے اپنے اطراف کے ماحول کے زیر اثر ہے ا ور ماحول کے رحم و کرم پر ہی جی رہی ہے۔اب وہ ماحول ہمیں موسموں کی شدت کی شکل میں ملے یا قدرتی آفات کے نتیجے میں ملے یا حادثات کی صورت میں ملے ہمیں رہنا ماحول کے ساتھ ہی ہے۔اس ماحول کے ساتھ رہتے ہوئے ہمیں بہت سارے جسمانی امراض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے یہ جسمانی امراض ہمیں موسموں کی تبدیلی کی وجہ سے بھی لاحق ہو سکتے ہیںیا کسی حادثے کی بدولت یا قدرتی آفات کی صورت میں بھی لا حق ہو سکتی ہے۔جسمانی مرض ہمارے جسم میں بہت ساری تبدیلوں کی وجہ بنتا ہے۔انفکشین کے ذریعے پیدا ہونے والے امراض کو ہم دو جانداروں کے درمیان جنگ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔جس میں خرد بینی اجسام یعنی جر ثومے بڑے جانداروں کے جسم میں داخل ہو کر اپنی آبادی میں اضافہ کرتے ہیں۔اور میزبان کے جسم کو کمزور و معذور یا زندگی سے محروم کر کے کسی نئے میزبان کی تلاش کرلیتے ہیں۔ ان امراض اور ان سے پیدا ہونے والی علامات اور پیچدگیوں کا سدباب کرنے کے لئے انسان تک و دو میں لگ جاتا ہے بہت مقامات پر ان کا سدباب ممکن ہے اور بعض مقامات پر ان پر کنٹرول حاصل نہیں ہوتا ہے۔دنیا میں کئی ممالک بچائوپر علاج سے زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ہر سال دنیا بھر میں ٢٥ اپریل کا دن ”عالمی یوم ملیریا” کے نام سے منایا جاتا ہے۔اس برس بھی انشاء اللہ یہ د ن Defeat of Malaria” ” یعنی ملیریا کی شکست کے نام سے منایا جائے گا۔
ملیریا بھی ان قدیم امراض میں سے ایک ہے ملیریا اٹالین لفظ ہے جو دو الفاظ سے ملکر بنا ہے میلا (mala)جس کے معنی غیر شفاف یا گندہ کے ہیں اور ایریا (aria)جس کے معنی ہوا کے ہیںیعنی گندی ہوا ہے۔ لفظ ملیریا کا استعمال سب سے پہلے اٹلی کے ایک سائنسدان ڈاکٹر فرانسسکو نے کیا ۔جب انسانی معاشرے میں گائوں اور قبائل کی شکل میں مستقیل رہائش کا عام رواج تھاتو ان سب کی یہی کوشیش ہوتی تھی کہ ہماری رہائش پانی کے نزدیک ہونی چاہی پھر یقنینا بہت سے لوگوں کا بخار ،سردی لگنا، کمزوری،بے ہوشی کے دوروں سے ٹھکرائو ہوا ہو گا۔چونکہ انسانی تاریخ بہت پرانی نہیں کہی جاتی۔دو ہزار سال سے زیادہ کوئی بھی قدیم دور قبل از مسیح سے وابستہ کیا جاتا ہے پھر بھی اندازہ ہے کہ ملیریاکی تاریخ کم از کم ایک لاکھ سال پرانی ہے جب بھی کسی کو کسی قسم کا کوئی انفکشین ہوتا ہے تو اس کی و جہ کوئی نہ کوئی جرثومہ ہوتا ہے اس کی وضاحت کرنا یہاں اس لئے ضروری ہے کہ اکثر افراد مچھر کو ملیریا کی وجہ سمجھتے ہیں جب کے مچھر تو ایک ذریعہ ہے ملیریا تو ایک پیرا سائیٹک بیماری ہے جو کہ ایک مادہ مچھر حاملہ کے کاٹنے سے ہوتی ہے یہ حاملہ مچھر اپنی غذائی ضروریات پُوری کرنے کے لئے انسان کو کاٹتی ہے اور خون چوستی ہے اس دوران ایک جرثومہ پیدا ہوتا جو پیرا سائٹ پلازموڈیم کہلاتا ہے یہ جرثومہ ملیریا کا جرثومہ کہلا تا ہے۔ پلازموڈیم دراصل ایک خلیہ جر ثومہ ہے جس کو اپنی حیات برقرار رکھنے کے لئے کسی انسانی جسم کی ضرورت ہوتی ہے یہ ایک طرح کا طفیلی جر ثومہ ہے جو انسان کے خون سے پلتا ہے۔اس جرثومہ پلازموڈیم کو پلنے کے لئے دو طرح کے جانداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک مچھر اور دوسرا انسان ۔۔۔۔۔۔ پلازموڈیم خون کے سرخ خلیوں پر حملہ کرتا ہے اور انھیں نقصان پہنچتا ہے۔
مادہ مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد پلازموڈیم خون کے ذریعے جگر میں جاتا ہے اور وہاں اپنی افزائش کرتا ہے۔ایک خاص تعداد تک پہنچنے کے بعد پلازموڈیم سر خ خلیوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔ہر سال دنیا کا آدھا حصہ ملیریا کا شکار ہوتا ہے۔ ملیریا کا شکار صرف غریب ممالک ہی نہیں ہوتے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ پایا جاتا ہے۔اگر ملیریا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ کہنا آسان ہو گا کہ ملیریا کا شمار ان امراض میں ہوتا ہے جس نے انسانی معاشرے بلکہ تاریخ تک کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔اس طرح کہیں جنگیں اسی وجہ ہاری جاچکی ہیں کہ ملیریا کے مرض کی وجہ سے فوجی لڑنے کے قابل نہیں رہتے تھے دوسری جنگ عظیم میں تقریبا ٦٠٠٠٠ فوجی صرف جنوبی مشرقی ایشیا میں ملیریا سے ہلاک ہوئے۔
پرانی روایت ہے کہ روم جیسی عظیم سلطنت کے زوال کا سبب بھی یہی مرض تھا اس لئے قدیم ادب میں اس کو رومن بخار Roman Fever کے نا م سے یاد کیا جاتا ہے۔ عرصہ دراز تک اس بات پر یقین کیا جاتا رہا ہے کہ گندے پانی کے جوہڑ اور بدبودار فضا، کچرے کا ڈھیر،اس مرض کا سبب ہے۔ مگر خرد بین کی ایجاد کے بعد ١٨٨٠ میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر چارلس لوئی الفانسے نے اس مرض کے جرثومے کو انسانی خون میں دریافت کیا اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ جر ثومہ مچھر اور انسانوں دونوں جانداروں میں پرورش پاتا ہے۔اس تحقیق کے باعث وہ نوبل انعام کا حق دار ٹھہرا بعد ازاں اس تحقیق کو اور وسعت ملی اور دیگر امراض معرض وجود میں آئے جسیے زرد بخار ایبولا اور ثابت یہ ہوا کہ کہ یہ بھی مچھر کی وجہ سے پھلیتے ہیں١٩٨٤ میں کلکتہ کے ایک اہسپتال میں تعینات برطانوی ڈاکٹر رونالڈراس نے تقریبا چار سال کی محنت کے بعد یہ ثابت کیا کہ پلازموڈیم کی زندگی کا دورانیہ دولائف سائکل پر چلتا ہے جس کا ایک حصہ وہ مچھر کے جسم میں گزرتا ہے اور دوسرا انسانی جسم میں۔۔پلازموڈیم جرثومہ مچھر کے جسم یعنی اس کی آنتوں اور لعاب دہن میں بھی اپنی زندگی کا چکر مکمل کرتا ہے۔پلازموڈیم جرثومہ جگر کے اندر کافی عرصے تک خاموش پڑا رہتا ہے۔یہ دوباراہ اُس وقت حملہ کرتا ہے جب کبھی مریض کو کسی بھی قسم کا انفکشین ہوتا ہے تو ہی جرثومہ بھی حملہ کر لیتا ہے ایسے مریضوں کو دو قسم کی دوائیاں دی جاتی ہیں ایک جگر میں موجودا جراثیم کو تباہ کرتی ہے دوسرا سرخ سلیز میں parasities کو ختم کرتی ہے۔ملیریا زیادہ تر بچوں کو ہوتا ہے مگر جوان اور بوڑھے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔
علامات: عموماہلکا بخار۔جسم میں تھکاوٹ ،ٹھنڈے پسینے آنا،شدید سر میں درد،چھنک،نزلے کی علامتوں کا اظہارہوتا ہے۔اس کے علاوہ ابتدائی علامتوں میں متلی ،قے جوڑوں میں درد، یرقان،بے ہوشی کے دورے بھی پڑ سکتے ہیں امراض سے بچائو کی تدابیر: کیڑے مکوڑے کے کاٹنے سے بچنا چائیے۔صاف اور خالص خوراک کا استعمال بڑھایا جائے۔خوراک صاف ستھرے برتن میں بنائی جائے اور کھائی جائے۔انتقال خون کا سامان صاف ہونا چاہے ۔اگر خون کا عطیہ ہو تو خون کو چیک کر لینا چاہیے ۔انجکشن لگاتے وقت نئی سرانجیوں کا استعمال کرنا چائیے۔ گندے پانی کے جوہڑاور نالے صاف رکھنے چاہیں گندگی اور کوڑاکرکٹ کے ڈھیر وں پر فنائل اور کاربالک ایسڈ کا چھڑکائو کیا جانا چائیے مشتبہ جراثیم کے لئے cubroguine بہترین انتخاب ہے مریض کو بستر پر لیٹائیں اگر سردی سے کپکپی لگی ہوئی ہے تو اسے کمبل اُڑائیں اور اسپرین یا پراسیٹامول دیں قے کی صورت میں بذریعہ انجکشن مریض کے جسم میں گلوکوز پنچائیںتاکہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہو اس کے علاوہ آجکل بہت سی Anti-Malarai دوائیاں میسر ہیں جن میں Malarove وغیرہ شامل ہیں۔جبPovivax اور P.ovale ملیریا کی اچھی طرح پچان ہو جائے تو مریض کو Priaquineتجویز کریں اور یہ کورس دو سے تین ہفتے کا ہوتا ہے اس کو مکمل کریں اس کے علاوہ مخلوقات کو بیماریوں سے بچانے کے ماہرین نے بہت سے طریقے اور تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی ہیں جس سے بیماریوں کے پھیلنے اور پیدا ہونے تک میں بہت سی کمی کی جا سکتی ہے۔
لندن ۔۔۔ملیریا کے خلاف کامیاب ویکسین آخری مراحل میں داخل ہوگی ہے اور اُمید ہے کہ اس سال یہ اپنی نوعیت کی پہلی ویکسین منظور کی جائے گئی۔ ایک طبی جریدے کے مطابق ملیریا کے لئے بنائی گئی ویکسین ایس ۔آر۔ ٹی ۔ایس کو خاصا کارآمد قرار دیا گیا ہے اس ویکسین کا افریقی ممالک میں ٹسٹ کیاگیا جس میں ١٥٠٠ نوولود بچے شامل تھے اور ابتدائی تحقیق میں ٨٠ فیصد نتیجہ کامیاب رہاہے جس کے بعد دوا ساز کمپنیوں نے یورپی میڈیسن اتھارٹی سے ملیریا کی ویکسین ایس ۔آر۔ ٹی ۔ایس کو بین الاقومی سطح پر استعال کی اجازت طلب کی ہےملیریا کہ بخار کے لئے دعا : ملیریاکہ بخار سے بچائوکے لئے انتہائی مفید اور سستا علاج: روزانہ استعمال میں لائے جانے والے نمک کو ایک صاف ستھری لوہے کی کڑاہی یا توے پر اچھی طرح بُون لیں جب یہ بھورے رنگ کا ہو جائے تو اس میں سے آدھاچمچ نمک لے کر اس کو آدھے گلاس پانی میں اُبال لیں۔جب یہ اچھی طرح مکس ہو جائے تو ہلکا ٹھنڈا پانی مریض کو پلائیں۔اس سے بخار اُتر جائے گا تین چار دن ایسے استعمال سے آرام ہوجائے گا۔ملیریا کا بروقت علاج اگر نہ کیا جائے تو اس سے انسان کومے میں چلاجاتا ہے اور بلآخر موت واقح ہو سکتی ہے برحال یاد رکھنے کے بات یہ ہے کہ پرہیز علاج سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ سستی بھی ہے۔
تحریر : عظمیٰ شاہ